[]
مہر خبررساں ایجنسی ، بین الاقوامی ڈیسک؛ گذشتہ دو سالوں کے دوران یوکرائن جنگ دنیا کی سیکورٹی اور اقتصاد کے لئے سب بڑا خطرہ بن کر سامنے آگئی ہے اسی لئے عالمی سطح پر مختلف ممالک نے براہ راست یا بالواسطہ اس جنگ کو ختم کرنے کے لئے ثالثی کی کوشش کی ہے۔ اس جنگ کی وجہ سے عالمی سطح پر غلات کی کمی، مہاجرین کی تعداد میں اضافہ اور توانائی کا بحران پید اہوا ہے۔ اقوام متحدہ کے سربراہ گوتریش اور عیسائیوں کے روحانی پیشوا پوپ فرانسس کی کوششیں بھی رائیگاں گئی تھیں۔
چین نے اس سلسلے میں اپنے تئیں کوششیں کیں۔ چین دنیا میں مختلف ممالک کے درمیان دیرینہ تنازعات کو حل کرنے کے لئے معروف ہے۔ ایران اور سعودی عرب کے درمیان مصالحت ایجاد کرکے چین نے صلح کی ایک اور مثال قائم کی تھی۔ گذشتہ سال مئی میں صدر شی جین پنگ یوکرائن کے صدر زیلنسکی کو فون کرکے رابطے کا آغاز کیا تھا۔
چین نے بارہ نکاتی فارمولا پیش کیا جس میں جنگ بندی اور روس پر مغربی ممالک کی پابندیوں کے خاتمے کی تجویز دی گئی ۔ چین کے منصوبے کو دونوں ممالک نے سراہا۔ یوکرائنی صدر نے چینی ہم منصب سے ون ٹو ون ملاقات کی خواہش ظاہر کی چنانچہ یوکرائن کے وزیرخارجہ نے الشرق چینل سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یوکرائن نے چین کا منصوبہ مسترد نہیں کیا ہے لہذا صدر زیلنسکی چینی ہم منصب سے ملاقات کے خواہاں ہیں۔
روس نے بھی چینی صدر کی تجویز پر مثبت ردعمل دکھاتے ہوئے کہا تھا کہ روس اس منصوبے پر غور کرے گا۔ چینی منصوبے میں جنگ کے خاتمے کے لئے مذاکرات اور فریقین سے صبر و تحمل سے کام لینے کی درخواست کی گئی تھی تاکہ بحران کی شدت آہستہ آہستہ ختم ہوجائے۔
چین نے اپنے بارہ نکاتی منصوبے میں کہا تھا کہ تمام ممالک کی سیکورٹی کو لاحق خطرات کا خاتمہ کیا جائے۔ نفسیاتی جنگ ختم کی جائے۔ علاقائی سطح پر فوجی اتحاد قائم کرکے امن بحال کیا جائے۔ انسانی امداد میں اضافہ کیا جائے۔ دونوں ممالک قیدیوں کو رہا کریں۔ تمام ممالک انسانی حقوق اور عالمی قوانین کی رعایت کریں۔ سویلین تنصیبات پر حملے بند کئے جائیں۔ خواتین، بچوں اور جنگی قیدیوں کے حقوق کی حفاظت کی جائے۔ عالمی مارکیٹ تک غلات کی ترسیل یقینی بنائی جائے۔ ایٹمی ہتھیاروں کا پھیلاو روکا جائے اور ایٹمی بجلی گھروں اور تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کی حفاظت کو یقینی بنایا جائے۔
چینی منصوبے کوتوقع کے عین مطابق اس کے بڑے حریف امریکہ کی طرف سے تشویق نہیں ملی ۔ واشنگٹن حکام نے روس اور چین کے قریبی تعلقات کو بہانہ بناکر اس منصوبے کی حمایت نہیں کی۔
چین کی ثالچی کے چند مہینے بعد بھارت نے اس میدان میں قدم رکھا۔ بھارتی وزیرخارجہ نے یوکرائن کی حالت کے پیش نظر اس حوالے سے ثالثی کی پیشکش کی۔ انہوں نے کہا کہ ہم کسی کے رقیب نہیں ہیں۔ ہماری ثالثی چین کے مقابلے میں نئی کوشش نہیں ہے بلکہ ہم یوکرائن کے حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے اس میدان میں قدم رکھ رہے ہیں۔بھارت نے اس جنگ کے آغاز سے بحران کو حل کرنے کے لئے کوششیں کی ہیں۔
برازیل نے بھی یوکرائن کا بحران حل کی کوشش کی۔ صدر داسیلو نے اپنی وزارت خارجہ کے ذریعے ثالثی کا پیغام بھیجا۔
وزیرخارجہ ماورو وپیرا نے کہا کہ برازیل بھی دیگر ممالک کی طرح یوکرائن کا بحران حل کرنے میں اپنا حصہ ڈالنا چاہتا ہے۔ صدر داسیلو نے بھی ایک ٹویٹ میں دوسرے ممالک کی طرح یوکرائن میں مصالحت کے لئے اپنی خدمات پیش کرنے کا ارادہ ظاہر کیا۔
ترکی نیٹو کا رکن ہونے کے ساتھ روس کے ساتھ بھی اچھے تعلقات رکھتا ہے اسی لئے ترکی نے بھی یوکرائن کا بحران حل کرنے کی کوشش کی۔ یوکرائن کی انسانی حقوق کونسل کے سربراہ نے ترکی کی جانب سے ثالثی کی پیشکش کا انکشاف کیا اور کہا کہ ترکی کے روس کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں لہذا اس کو استعمال کرتے ہوئے بحران کے حل کے لئے کوشش کرنے کا خواہشمند ہے۔
ترکی کی جانب سے ثالثی کی خبروں کے ساتھ نیٹو کے سیکریٹری جنرل کا یہ بیان سامنے آیا کہ نیٹو یوکرائن کو جلد بھاری اسلحہ فراہم کرے گا۔
فرانس اور جرمنی جیسے یورپی ممالک یوکرائن کے کیمپ میں ہیں۔ ان ممالک نے بھی بحران کو حل کرنے کے لئے ثالثی کی پیشکش کی۔ تاہم کرملین کے ترجمان نے میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ فرانس کو یوکرائن بحران میں ثالثی کا کوئی حق نہیں ہے کیونکہ فرانس تنازعے کا حصہ ہے اور براہ راست یوکرائن کی جنگ میں حصہ لے رہا ہے۔
ایرانی صدر کے دفتر سے ایک ٹویٹ جاری کیا گیا جس میں انکشاف کیا گیا کہ تہران نے ماسکو کو یوکرائن بحران میں مصالحت پر مبنی اہم پیغام دیا ہے۔
صدارتی دفتر کے سربراہ محمد جمشیدی نے کہا کہ کئی مرتبہ مذاکرات کے بعد وزیرخارجہ عبداللہیان کے توسط سے تہران نے ماسکو کو اہم پیغام ارسال کیا ہے۔ اس ٹویٹ کے بعد خبر آئی کہ فرانسیسی صدر میکرون نے ایران سے یوکرائن بحران کو حل کرنے میں ثالثی کی درخواست کی تھی۔
صدر رئیسی نے رشیا ٹوڈے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ایران یوکرائن اور روس کے درمیان جاری بحران کے جلد خاتمے کا خواہاں ہے۔ نیویارک میں بھی انہوں نے میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے ثالچی کی پیشکش کی تھی۔
گذشتہ سال سعودی عرب، عرب امارات ، عراق،انڈونیشیا، الجزائر ، جنوبی افریقہ اور سینیگال جیسے ممالک نے بھی بحران کو حل کرنے کی کوشش کی تاہم تقریبا دو سال سے جاری جنگ کے فوری خاتمے کا کوئی امکان نظر نہیں آرہا ہے اور یہ سوال اپنی جگہ برقرار ہے کہ کس میکانزم کےتحت روس اور یوکرائن کے درمیان جاری جنگ ختم کی جائے اور بنیادی طور پر کون سی طاقت دونوں ممالک کو مذاکرات کی میز پر بٹھانے کی صلاحیت رکھتی ہے؟