دوسری پارٹیوں میں شامل ہونے والے بی آر ایس قائدین کو انتباہ

[]

حیدرآباد: بی آر یس سربراہ کے چندرا شیکھر راو نے کہا اسمبلی انتخابات میں شکست کے بعد بی آر ایس چھوڑ کر دوسری پارٹیوں میں شامل ہونے والے قائدین کو دوبارہ پارٹی میں شامل نہیں کیا جائے گا۔

انہوں نے کہا بی آر یس ایک تحریکی پارٹی کے طور پر شروعات کرنے اور علحدہ ریاست تلنگانہ حاصل کرنے کے بعد حکومت بنائی جس سے کئی قائدین کو سیاسی مستقبل مل گیا ہے، لیکن موجودہ حالات میں، کچھ قائدین کا پارٹی چھوڑنے کا فیصلہ درست طریقہ نہیں ہے۔

پارلیمانی انتخابات کے پیش نظر کے سی آر نے تلنگانہ بھون میں محبوب نگر اور ناگرکرنول لوک سبھا حلقوں کے اہم قائدین کے ساتھ ملاقات کی۔ اس موقع پر کے سی آ نے کہا کہ وہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ اسمبلی انتخابات میں عوام کا فیصلہ اس طرح آئے گا۔

انھوں نے کہا کہ انھوں نے مشترکہ محبوب نگر ضلع کے لیے بہت کچھ کیا تھا لیکن انھیں وہاں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ انہوں نے کہا کہ ان کی حکومت نے اس ضلع میں آبپاشی پروجیکٹس تعمیر کرائے جہاں سے عوام کی بہت زیادہ نقل مکانی ہوتی رہی اس کے علاوہ مختلف شعبوں میں ترقی ہوئی ہے، ان کی دانست میں محبوب نگر میں بی آر ایس کو شکست نہیں ہونی چاہیے تھی۔

انہوں نے کہا کہ پالامورو لفٹ پروجیکٹ کے زیادہ تر کام مکمل کر لیے گیے تھے، اور کانگریس حکومت کے لیے صرف نہروں کی تعمیر اور پانی فراہم کرنے کا کام باقی رہ گیا ہے۔ اس موقع پر کچھ رہنماؤں نے کے سی آر کو مشورہ دیا کہ مشکل وقت میں پارٹی چھوڑنے والوں کو دوبارہ پارٹی میں شامل نہ کریں جس پر کے سی آر نے واضح کیا کہ انہیں دوبارہ پارٹی میں لینے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔

کے سی آر نے کہا ہم نے ناگرکرنول کے رکن پارلیمنٹ پی راملو کے ساتھ کیا کم تھا؟ راملو کے ساتھ ان کے بیٹے کو بھی پارٹی میں کئی مواقع ملے۔ انہوں نے کہا ایسے موقع پرست آتے جاتے رہتے ہیں۔ ہمیں اس طرح کے قائدین کو نظر انداز کرنا چاہیے۔

کے سی آر نے پارٹی قائدین سے کہا چاہے ہم کامیاب رہیں یا ناکام رہیں ہمیں اس بات کو یقینی بنانا چاہئے کہ ہماری پارٹی ہمیشہ عوام کے ساتھ رہے، کے سی آر نے انتخابات کے دوران کانگریس قائدین پر تنقید کی کہ انہوں نے غیر معمولی وعدے کرکے لوگوں میں امیدیں پیدا کیں اور کامیابی کے بعد اب عوام کی طرف دیکھ بھی نہیں رہی ہے کل تک عوام کو دھوکہ دینے والے کانگریسی قائدین اب وعدوں کو پورا کرنے سے فرار اختیار کررہے ہیں۔

انہوں نے الزام لگایا کہ کانگریس قائدین ریاست کی مالی حالت کو جانے بغیر وعدے کرکے لوگوں کو دھوکہ دینے کی کوشش کررہے ہیں۔ کے سی آر نے کہا کہ جو لوگ بی آر ایس کے خلاف کانگریس کے پروپیگنڈے پر یقین کرتے ہوئے ووٹ دیتے تھے وہ اب حقائق جان رہے ہیں۔

انہوں نے پارٹی امیدواروں کومشورہ دیا کہ مستقبل کو ذہن میں رکھتے ہوئے اجتماعی کوششوں سے کامیابی کے لئے کام کریں۔ کے سی آر نے کہا کہ بی ایس پی کے ساتھ اتحاد ایک طویل مدتی حکمت عملی کا حصہ ہے۔ اس اتحاد کے ذریعے دلتوں اور بہوجنوں کو قریب لایا جا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر بی ایس پی کو ایک یا دو ایم پی سیٹیں بھی دی جاتی ہیں تو بھی دونوں پارٹیوں کے تال میل سے امیدوار جیت سکتے ہیں۔

بتایا جا رہا ہے کہ بی ایس پی کے ریاستی صدر آر ایس پراوین کمار کے ناگرکرنول لوک سبھا سیٹ سے الیکشن لڑنے کا امکان ہے۔ بی آر ایس کے سربراہ کے چندر شیکھر راؤ نے کہا کہ بی ار یس کے اقتدار سے محرومی کے بعد عوام کانگریس دور میں ان کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں کے بارے میں سوچ رہے ہیں۔

آج تلنگانہ بھوں میں صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کانگریس قائدین سابق حکومت پر الزام تراشی کے واحد مقصد سے کام کر رہے ہیں۔ کے سی آر نے کہا کہ لوک سبھا انتخابات میں بی آر یس امیدواروں کو کامیابی کے امکانات روشن ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ صرف تین مہینوں میں ہی حکومت کے خلاف عوام میں مخالفت شروع ہو چکی ہے جس کی وجہ ہم ا عتماد کے ساتھ کہہ سکتے ہیں ہمارے تمام امیدوار اچھی اکثریت سے کامیاب ہوں گے۔

کے سی آر نے کہا کہ کانگریس سے تین تا چار فیصد زیادہ ووٹ حاصل ہونے کی توقع ہے۔ کے سی آر نے کہا کہ ریاست کی تشکیل کا کارنامہ کا ریکارڈ رکھنے والی پارٹی کے طور پر بی آر ایس ہمیشہ عوام کے لئے کام کرتی ہے انہوں نے کہا کامیابی ناکامی سیاست کا حصہ ہے۔

کے سی ار نے یاد دلایا کہ جب بی آر ایس نے 2014 میں اقتدار سنبھالا تو انہوں نے معاشی بدحالی کے لیے کسی کو مورد الزام نہیں ٹھہرایا اور جو کچھ تھا اسے بہتر کیا۔ انہوں نے کہا کہ حکومت چلانے سہولت کے لیے قرض لیتے ہیں اور بازاری قرض لینے کے نام پر دنیا کا ہر ملک اور ہمارے ملک کی ہر ریاست کو قرضہ ملتا ہے۔ انہوں نے یاد دلایا کہ دنیا کا امیر ترین ملک امریکہ بھی قرضوں سے حکومت چلا رہا ہے۔ کے سی آر نے تنقید کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کے قرض پر تبصرہ کرنا معلومات کی کمی کا نتیجہ ہے۔



ہمیں فالو کریں


Google News

[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *