[]
لکھنو: سنی سنٹرل وقف بورڈ نے دعویٰ کیاہے کہ لکھنو کی ٹیلے والی مسجد وقف جائیداد ہے۔ اس نے کیس کو مزیدسماعت کیلئے وقف ٹریبونل منتقل کرنے کا مطالبہ کیا۔ درخواست گزار نرپیندرپانڈے نے ٹیلے والی مسجد کا سروے کرانے کی گزارش کی تھی۔
اس کا دعویٰ ہے کہ مسجد کی جگہ لکشمن ٹیلہ ہے جسے بھگوان رام کے چھوٹے بھائی لکشمن نے تعمیر کیاتھا۔ کورٹ کمشنر کے تقرر کے ذریعہ ٹیلے والی مسجد کے سروے کی درخواست 2013ء میں داخل ہوئی تھی تاہم سنی سنٹرل وقف بورڈ کے پاس یہ ثابت کرنے کیلئے سرٹیفائیڈ کاپی نہیں تھی کہ ٹیلے والی مسجد وقف پراپرٹی ہے۔
اس نے کاغذات جمع کرانے عدالت سے مہلت مانگی۔ درخواست گزار کو وقت دیتے ہوئے سیول جج جونیئر ڈیویژن ابھیشک گپتا کی عدالت نے تاریخ سماعت 15مارچ مقرر کی۔ وکیل نرپیندرپانڈے جو درخواست گزار ہیں خود عدالت میں حاضر ہورہے ہیں۔
انہوں نے نشاندہی کی کہ یہ دیوانی مقدمہ (سیول کیس) ہے۔ مسجد وقف جائیداد ہے یا نہیں ہے‘ اس کا کیس پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ درخواست گزار نے عدالت سے گزارش کی کہ مسجد کیمپس خاص طور پر اس علاقہ کے سروے کی اجازت دی جائے جسے 2013ء میں باؤنڈری وال تعمیر کرتے ہوئے مسجد کمیٹی نے اپنے کنٹرول میں لے لیا۔
ٹیلے والی مسجد سے جڑے دوسرے کیس میں ایڈیشنل ضلع جج کی عدالت نے جاریہ سال 28 فروری کو مسلم فریق کی درخواست نظرثانی مستردکردی تھی۔ مسلم فریق نے جونئیر کورٹ کے احکام کو چیلنج کیاتھا۔ اترپردیش کے ریاستی دارالحکومت لکھنو میں دریائے گومتی کے کنارے ٹیلے والی مسجد واقع ہے۔
مولانا قاری سید شاہ فضل المنان نے سیول رٹ پٹیشن میں سیول جج(ساؤتھ) کے احکام مورخہ 6 ستمبر 2023کو چیلنج کیاتھا۔ ان احکام میں کہاگیاتھا کہ ہندو فریق کا مقدمہ ٹک سکتا ہے یعنی عدالت میں کیس چل سکتا ہے۔ وکیل نرپیندرپانڈے نے 15 فروری2023 ء کو عدالت میں مقدمہ دائر کرکے اجازت مانگی تھی کہ بھگوان شیش نگیش ٹیلیشور مہادیومندر میں پوجاکرنے دیاجائے۔