[]
مہر خبررساں ایجنسی، سیاسی ڈیسک: پاکستان کے قیام کو 76 سال مکمل ہونے پر ملک بھر میں 12ویں عام انتخابات جمعرات کو منعقد ہوئے۔ اس الیکشن میں قومی اسمبلی کی 271 اور صوبائی اسمبلیوں کی 590 نشستوں کے حصول کے لئے مختلف پارٹیوں کے درمیان کانٹے دار مقابلہ رہا۔
ملک کے الیکشن کمیشن کے اعلان کے مطابق قومی کونسل کی کل 271 نشستوں میں سے 101 نشستیں آزاد امیدواروں کو دی گئی ہیں جن میں سے 93 افراد کا جھکاؤ عمران خان کی تحریک انصاف کی طرف ہے۔ ان میں سے سابق وزیر اعظم نواز شریف کی پارٹی مسلم لیگ ن کو 75 نشستیں، پیپلز پارٹی کو 54 نشستیں جب کہ ایم کیو ایم نے 17 اور دیگر جماعتوں نے 1 سے 4 نشستیں حاصل کیں۔
واضح رہے کہ پاکستان کی 241 ملین آبادی میں سے تقریباً 128 ملین افراد ووٹ ڈالنے کے اہل تھے اور اس الیکشن میں شرکت کی شرح 48 فیصد تھی۔
پاکستان سیاسی بحران کی دلدل میں
2018 سے، جب عمران خان برسراقتدار آئے، 2021 تک، جب پارلیمنٹ نے ان سے منہ موڑ لیا اور “شہباز شریف” اور “انوار الحق کاکڑ” جیسے لوگوں کو بالترتیب یہ قلمدان ملا جب کہ عمران خان اور پاک فوج کے تعلقات میں ڈیڈلاک رہا۔
عمران خان پہلے پاک فوج کی جزوی حمایت سے وزیر اعظم بنے لیکن بعد میں فوجی حکام سے اختلافات ہو گئے۔ عمران خان اور ان کے حامیوں کا خیال ہے کہ فوج نے انہیں اقتدار سے ہٹانے کے لیے سب کچھ کیا ہے یہاں تک کہ ان کے خلاف 100 سے زائد مقدمات درج کیے گئے ہیں جن میں کرپشن کے الزامات سے لے کر دہشت گردی اور مقدسات کی کی توہین تک کے الزامات شامل ہیں۔
ان کے نقطہ نظر سے عمران خان کی گرفتاری سیاسی طور پر اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش تھی کہ وہ دوبارہ امیدوار نہ بن جائیں۔
2021 میں انہیں برطرف کرنے کے بعد، انہوں نے اعلان کیا کہ اس ملک کی فوج کے اس وقت کے سربراہ “قمر جاوید باجوہ” نے شہباز شریف اور ان کے اتحادیوں کے ساتھ مل کر انہیں وزارت عظمیٰ سے ہٹا دیا۔
پاکستان میں اندرونی کشیدگی کا عروج اس سال مئی کے وسط میں شروع ہوا، جب محکمہ انسداد بدعنوانی کی فورسز نے اس ملک کے سابق وزیراعظم عمران خان کو گرفتار کر لیا۔ اس واقعے کے فوراً بعد عمران خان کے حامیوں کی ایک بڑی تعداد سڑکوں پر جمع ہوگئی اور مختلف شہروں میں بعض سرکاری اور فوجی مراکز پر حملہ کیا۔
عمران خان کے مشتعل حامیوں نے ہنگامہ آرائی کے دوران کچھ فوجی افسران کے گھروں کو تباہ کر دیا اور فوج کے ایک طیارے کو بھی آگ لگا دی گئی۔ اس کے باوجود سپریم کورٹ آف پاکستان نے عمران خان کی گرفتاری کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے ان کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا لیکن وہ ابھی تک جیل میں ہیں۔
عمران خان اب بھی عوام کی پسند کیوں ہیں؟
انتخابی نتائج نے واضح طور پر عمران خان کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کو ثابت کیا۔ ایک ایسی مقبولیت جس نے پاکستان میں طاقت کے ڈھانچے میں ہلچل مچا دی ہے۔ اس لیے ایسا لگتا ہے کہ اس کہانی کے پیچھے مالی بدعنوانی اور عمران خان کی ملکی معاملات میں نالائقی کے پہلو کے بجائے کوئی دوسرا سیاسی اختلاف یا عامل کارفرما ہے۔
بلاشبہ وزرائے اعظم کی گرفتاری اور ان پر الزامات پاکستان میں کوئی نئی بات نہیں ہے بلکہ یہ ایک عام سا رویہ بن چکا ہے۔ جیساکہ 1977 سے اب تک پاکستان میں سات سے زائد وزرائے اعظم کو کرپشن کے الزام میں گرفتار اور ان پر مقدمات چلائے جا چکے ہیں۔
عمران خان کی گرفتاری کے بارے میں دو نکات قابل ذکر ہیں؛ ایک تو ان کی گرفتاری اور تذلیل جو کی گئی کہ جس سے ان کے مداحوں کے جذبات مجروح ہوئے اور دوسرا اس معاملے کے حوالے سے عمران خان کے مداحوں کا دعویٰ ہے کہ وہ ان کی گرفتاری اور توین آمیز سلوک کو زیادہ سیاسی سمجھتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ عمران خان پر مالی بدعنوانی کا الزام غلط اور بے بنیاد ہے۔
“مغرب دشمنی” عمران خان کی مقبولیت کی ایک وجہ ہے کیونکہ اسلام آباد کی حکومت کو عمران خان اور ان کے حامی امریکہ اور مغرب کی کٹھ پتلی سمجھتے ہیں۔
عمران خان کی مقبولیت کا دوسرا عنصر ” کمزور بلکہ مشکلات میں گھری ملکی معیشت” ہے۔
پاکستان اس وقت بے شمار مسائل سے دوچار ہے، جن میں سب سے زیادہ دباؤ اس کی کمزور معیشت ہے۔ بڑھتی ہوئی بیروزگاری، مہنگائی، بجلی اور گیس کی کٹوتی کے ساتھ ساتھ صحت کے مسائل پاکستان میں ان دنوں کے اہم چیلنجز میں شامل ہیں اور مستقبل کی حکومت کو ان کا سدباب کرنا چاہیے جب کہ 1958 سے اب تک پاکستان آئی ایم ایف (انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ) سے 23 مرتبہ قرضہ لے چکا ہے۔
گزشتہ سال پاکستان کے سیاسی تجزیہ نگار “مرتضیٰ حسین” نے “آفتوں کی زنجیر” کے عنوان سے ایک مضمون لکھا جس کے ایک حصے میں انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ ایشیا میں بے شمار اقتصادی کامیابیوں کے باوجود پاکستان غریب، پریشان اور غیر مستحکم ملک رہا ہے اور انہوں نے اس کی وجہ ناقص سیاسی انتظام کو قرار دیا۔
اس لیے جب پاکستان اپنے بدترین معاشی دنوں اور مشکل ترین سیاسی حالات سے گزر رہا ہے، اس ملک کے عوام کا ایک قابل ذکر حصہ یہ سمجھتا ہے کہ اگر عمران خان کی پارٹی اقتدار میں آ جائے تو ان کے معاشی مسائل کسی حد تک کم ہو جائیں گے۔
لہٰذا چند روز قبل ہونے والے انتخابی نتائج نے ثابت کر دیا کہ عمران خان اور تحریک انصاف کو عوام کی حقیقی حمایت حاصل ہے۔
ما بعد انتخابات کے منتشر ماحول میں پاکستان کا سیاسی منظرنامہ
معاشی مسائل کے علاوہ سیاسی عدم استحکام نے اس ملک پر کئی دہائیوں سے ایسا سایہ ڈالا ہے کہ گزشتہ 76 سالوں میں کوئی بھی منتخب وزیراعظم اپنی قانونی پانچ سالہ مدت پوری کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکا۔
اس وقت سیاسی عدم استحکام سے نکلنے کے لیے فریقین کے ایجنڈے میں ’’مخلوط حکومت‘‘ رکھی گئی ہے۔
لہٰذا پاکستان کے انتخابات کے بعد کے جنون میں، جیسا کہ عمران خان کی پارٹی حکومت بنانے اور طاقت دکھانے کی کوشش کر رہی ہے، باوجود اس کے کہ وہ اور اس کی پارٹی کے بہت سے اراکین جیلوں میں ہیں جب کہ دوسری روایتی جماعتوں جیسے مسلم لیگ نواز اور پیپلز پارٹی نے مخلوط حکومت بنانے کے لیے مشاورت شروع کر دی ہے۔
دوسری جانب علامہ “ناصر عباس جعفری” کی قیادت میں “مجلس وحدت مسلمین” نامی پاکستان کی شیعہ جماعت نے پاکستانی انتخابات کے حوالے سے عمران خان کے موقف کی حمایت کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ ان کی جماعت حکومت کی تشکیل سمیت تمام حالات میں غیر مشروط طور پر خان کے ساتھ تعاون اور مدد کرنے کے لیے تیار ہے۔
اس لیے اس ملک کی آئندہ حکومت کی تقدیر کا تعین کرنے کے لیے پاکستان کی سرکردہ شیعہ جماعت مجلس وحدت مسلمین کی عمران خان کی جماعت کے ساتھ بھرپور تعاون کے اعلان کو پاکستان میں سیاسی منظرنامے میں نمایاں کوریج ملی ہے۔
مجموعی طور پر اگرچہ اتحادی یا مخلوط حکومت کی تشکیل ہی پاکستان کے لیے اس گہرے اندرونی سیاسی بحران سے نکلنے کا بہترین حل ہے، لیکن دیرینہ اور وسیع تر تنازعات جیسے مسائل پر غور کرتے ہوئے عمران خان کی جماعت اور انتخابات میں ان کی حمایت کرنے والی جماعتوں کی طرف سے حکومت بنانے کے زیادہ امکانات کے باوجود، فوج کی عمران خان کے ساتھ سخت مخالفت کے پیش نظر پاکستان کا سیاسی منظرنامہ قدرے تاریک اور پیچیدہ نظر آتا ہے۔