ہلدوانی تشدد رپورٹ میں سنسنی خیز انکشافات، حقائق کا پتہ چلانے والی ٹیم کی رپورٹ (ویڈیو)

[]

نئی دہلی: ایک شہری حقوق گروپ کی زیرقیادت حقائق کا پتہ چلانے والی ٹیم نے دعویٰ کیا ہے کہ 8 فروری کو ہلدوانی میں جو پُرتشدد جھڑپیں ہوئی تھیں وہ تنہا واقعہ نہیں ہے بلکہ پھوٹ ڈالنے والے بیانات اور پالسیوں کے نتیجہ میں پیدا ہونے والی فرقہ وارانہ کشیدگی کا نقطہ عروج ہے۔

واضح رہے کہ بنفول پورہ علاقہ میں ایک غیرقانونی طور پر تعمیر کردہ مدرسہ کے انہدام پر 8 فروری کو تشدد پھوٹ پڑا تھا۔ مقامی عوام نے بلدی ورکرس اور پولیس پر سنگباری کی تھی اور پٹرول بم پھینکے تھے۔ جس کے نتیجہ میں کئی پولیس ملازمین ایک پولیس اسٹیشن میں پناہ لینے پر مجبور ہوگئے تھے۔

بعدازاں ہجوم نے اس پولیس اسٹیشن کو جلانے کی کوشش کی تھی۔ سیول سوسائٹی کی ایک حقائق کا پتہ چلانے والی ٹیم جس میں اسوسی ایشن فار پروٹیکشن آف سیول رائٹس اور کاروانِ محبت نے چہارشنبہ کو ہلدوانی کا دورہ کیا تھا۔

ٹیم کی رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ یہ معاملہ زیر التواء ہے۔ حکام نے مہربند مسجد اور مدرسہ کو منہدم کیا جس کے نتیجہ میں مسلمانوں میں اضطراب پیدا ہوگیا۔ یہ صورتحال فوری مقامی عوام اور نفاذ قانون کے ذمہ داروں کے درمیان جھڑپوں میں تبدیل ہوگئی۔

اس رپورٹ میں گواہوں کی شاہدات کا حوالہ دیا گیا ہے اور پولیس کی جانب سے طاقت کے اضافی استعمال بشمول اندھا دھندفائرنگ، تلاشی و حراست کے دوران بربریت کا الزام عائد کیا گیا ہے۔

اس رپورٹ میں طویل مدت تک کرفیو کے نفاذ اور انٹرنٹ کی مسدوسی پر تنقید کی گئی ہے جس کی وجہ سے پہلے سے کمزور ساکنین خاص طور پر خواتین اور بچوں کی مصیبت میں اضافہ ہوگیا تھا۔

یہ علاقہ 8 فروری کو تشدد سے متاثر ہوگیا تھا اور ٹیم کے دورہ کے وقت بھی یہاں کرفیو نافذ تھا جس کی وجہ سے ٹیم کے ارکان راست طور پر متاثرین سے ملاقات اور بات چیت کرنے سے قاصر رہے۔

انہوں نے بتایا کہ ہم نے ضلع انتظامیہ کے ارکان سے ربط پید اکیا لیکن انہوں نے ہمیں یاتو کوئی جواب نہیں دیا یا پھر یہ اطلاع دی کہ وہ لوگ بے حد مصروف ہیں اور ہم سے ملاقات کرنے سے قاصر ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ اسی لئے یہ ایک عبوری رپورٹ ہے جو مہذب سماج کے ارکان کی کثیر تعداد، صحافیوں، ادیبوں اور وکیلوں کے ساتھ بات چیت پر مبنی ہیں، اس کے علاوہ متاثرین سے فون پر بھی بات چیت کی گئی ہے جنہوں نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر ہم سے گفتگو کی تھی۔



ہمیں فالو کریں


Google News



[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *