امریکہ کو اپنی علاقائی حکمت عملی پر نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے۔ امریکی تجزیہ نگار

[]

مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک: امریکہ کے ممتاز محقق تھامس فریڈمین نے حال ہی میں نیویارک ٹائمز کے لئے ایک آرٹیکل لکھا جس کا متن درج ذیل ہے:

بائیڈن ڈاکٹرائن ان نظریات میں سے ایک ہے جو ایک ایسی قانونی شہری (غیر فوجی) فلسطینی ریاست کی حمایت کرتی ہے جو اسرائیل کے ساتھ امن اور سلامتی کے ساتھ رہ سکے۔

یہ نظریہ خطے میں ایران کے حمایت یافتہ گروہوں کے ساتھ براہ راست تصادم کا متقاضی ہے جو اسرائیل کو مٹانے، امریکہ کو خطے سے نکالنے، اور امریکہ کے اتحادیوں کو خوف زدہ کرنے سے باز نہیں آئیں گے۔ 

چند روز قبل شمالی اردن میں ایک امریکی اڈے کو عراقی مزاحمت کی جانب سے داغے گئے ڈرون نے نشانہ بنایا جس کے نتیجے میں 3 امریکی فوجی مارے گئے۔ جب کہ 7 اکتوبر سے لے کر اب تک اور اس سے پہلے بھی ایسے درجنوں حملوں کے باوجود ان میں سے کوئی بھی امریکی فوجیوں کی ہلاکت کا باعث نہیں بنا تھا۔ 
یہ واقعہ اس لحاظ سے کہ بائیڈن انتظامیہ کا فوجی ردعمل کیسا ہو گا؟ سب کچھ بدل دے گا۔
یہ کہنا چاہیے کہ بائیڈن انتظامیہ ایک ایسے ٹارگٹڈ پلان کی کوشش میں ہے جو نشانہ بنانے اور طویل ڈیٹرنس کی صلاحیت رکھتا ہو ہے اور ایسا نہیں لگتا کہ یہ کارروائی ایک دن کی راکٹ بمباری تک محدود رہے گی۔

بہت سے لوگ ایسے ہیں جو ایران پر براہ راست حملے کی توقع رکھتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ایران کو سبق سکھانا چاہئے۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ اس سلسلے میں احتیاط کے تمام پہلوؤں کو ملحوظ رکھا جانا چاہیے نہ صرف اس لیے کہ آپ ایران کے خلاف براہ راست جنگ شروع نہیں کرنا چاہتے بلکہ اس لیے بھی کہ امریکہ کے لیے یہ کہنا بہت مشکل ہے کہ ایک طرف ہم اپنا اور اسرائیل کا دفاع کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں جب کہ اسی وقت ایران کو نشانہ بنانے کوشش کرے۔کیونکہ اسرائیل اگلی صبح کا منصوبہ بنائے بغیر غزہ جنگ میں بری طرح پھنس چکا ہے جب کہ وہ مغربی کنارے کو بھی ضم کرنا چاہتا ہے۔ بنیادی طور پر بائیڈن ڈاکٹرائن کہتی ہے کہ ہم حماس اور ایران کی حمایت یافتہ افواج کے خلاف اپنے دفاع کے لیے اسرائیل کی مدد کرنے کے لیے تیار ہیں۔ 
لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہم اس ڈاکٹرائن کو مؤثر طریقے سے نافذ نہیں کر سکیں گے۔ کیونکہ موجودہ حالات میں ہمارے پاس یہ کام کرنے کے لیے ضروری علاقائی جواز موجود نہیں ہے اور نہ ہی ہمارے علاقائی اور عالمی اتحادیوں کی مدد ہمارے کوئی کام آئے گی جب تک اسرائیل دو ریاستی حل کے سفارتی عمل میں شامل نہیں ہوتا۔

تاہم اس حوالے سے موجودہ اسرائیلی حکومت غور کر رہی ہے کہ آیا اسرائیل کو فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنا چاہیے یا نہیں۔ وہ سرکاری اور غیر سرکاری ماہرین سے مشاورت کر رہی ہے جو کہ پچھلی حکومتوں میں سے کسی نے نہیں کیا۔

میری رائے میں بات چیت اور مذاکرات کا یہ سلسلہ صیہونیوں کے احتجاجی ردعمل میں تیزی کا باعث بنے گا۔ لیکن یہ ہمارے لیے سیاسی غورو فکر کا ایک نیا دریچہ بھی کھولے گا۔ 
تاہم فطری طور پر اسے اسرائیل میں بہت سی مخالفتوں کا سامنا کرنا پڑے گا اور یہ موجودہ اسرائیلی حکومت کے خاتمے کا باعث بھی بن سکتا ہے لیکن ساتھ ہی یہ اسرائیلیوں کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کر دے گا اور واقعی ایک ایسی چیز کے بارے میں سوچنے پر مجبور کرے گا جس کے بارے میں انہوں نے آج تک نہیں سوچا تھا۔ اور وہ یہ ہے کہ غزہ پر حکومت کیسے کی جائے؟

میری رائے میں بائیڈن کو سب سے پہلے کچھ گروہوں، جیسے ترقی پسندوں اور بائیں بازو کی حمایت خریدنے کے لیے پیسہ استعمال کرنے پر مجبور کرے گا، کیونکہ وہ اس حمایت کے خلاف ہیں جو امریکہ اسرائیل کو دیتا ہے اور اسرائیل کے لیے امریکہ کے اس سفید چیک سے وہ ناخوش ہیں۔ 
دوم: اسے سعودی عرب کے ساتھ ایک سیکورٹی معاہدہ طے کرنے کے لیے مذاکرات کی طرف جانا چاہیے، جس میں درج ذیل امور شامل ہو سکتے ہیں: ہتھیاروں کی منتقلی، سیکورٹی ذمہ داریاں، سعودی عرب کا سویلین جوہری پروگرام اور اسرائیل کے ساتھ سعودی تعلقات کو معمول پر لانا۔ البتہ یہ تسلیم کرنا چاہیے کہ یہ تعلقات معمول پر تب ہی آئیں گے جب اسرائیل فلسطینیوں کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھے گا اور کسی نتیجے پر پہنچے گا۔

ایسا لگتا ہے کہ اگر ہم ان اقدامات کو  بروقت عمل میں لانے میں ناکام رہے تو ہم ایک ایسے مشرق وسطیٰ کا مشاہدہ کریں گے جو  جنگ کے شعلوں میں جل رہا ہوگا۔ جب کہ یہ صورت حال اسرائیل کے لئے سنگین خطرہ بلکہ تباہ کن ثابت ہو گی۔ 
میرے خیال میں یہ صورتحال ہمارے عرب اتحادیوں کو ہم سے دور کرنے کا سبب بھی بنے گی جب کہ ایران اور روس کو خطے کی بڑی طاقتیں بننے کا موقع مل جائے گا۔

[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *