[]
ملک کی سب سے پرانی پارٹی اور تجربہ کار کانگریس کی قیادت بانیان ملک سے لے کر پارٹی کارکنان تک کر چکے ہیں، باوجود اس کے سیاسی مخالفین کانگریس کو کسی نہ کسی طور پراس لئے تنقید کا نشانہ بناتے رہے کہ یہ پارٹی قیادت کے لیے کسی بھی غیر کانگریسی چہرے پر بھروسہ کرنے کو تیار نہیں ہوتی۔ مگر کانگریس ہائی کمان نے پارٹی کے وفادار ملک ارجن کھڑگے کو کمان سونپ کر مخالفین کے منہ پر تالا جڑ دیا مگر اب جبکہ ’انڈیا‘ کی تشکیل ہوئی ہوئی تو مخالفین کو پھر بولنے کا موقع مل گیا اور وہ یہاں تک کہنے لگے کانگریس کو نتیش کمار جیسے تجربہ کار لیڈر پر بھروسہ کرنا چاہئے اور انہیں اپوزیشن اتحاد ’انڈیا‘ کی قیادت سونپ دینا چاہئے۔ لیکن اب نتیش کی وکالت کرنے والے وہی مخالفین خود اپنا منہ چھپائے پھرتے نظر آ رہے ہیں۔
ایسی صورت میں کانگریس کے ایک اور داخلی ’فیصلے‘ نے ووٹروں کا وقار مجروح ہونے سے بچا لیا اور خود بھی یہ کہنے کی پوزیشن میں ہے کہ بھروسہ کے لائق جب کوئی لیڈر ملے تب تو اس پر بھروسہ کیا جائے۔ کیونکہ نتیش کمار نے اس بار بھی حسب عادت مفاد کو ترجیح دیتے ہوئے بھگوا خیمہ کے سامنے خودسپردگی کرنا گوارہ کر لیا ہے۔ حالانکہ جہاں تک ماہرین سیاست کا کہنا ہے کہ کانگریس کی قیادت والے ’انڈیا اتحاد‘ میں نتیش کمار کا مستقبل روشن نظر آ رہا تھا، جے ڈی یو رہنما نے بی جے پی سے ہاتھ ملا کر اپنے پیروں پر خود ہی کلہاڑی مار لی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ تیش پر جہاں سیاسی رہنماؤں کے اعتماد کو ٹھیس پہنچی ہے وہیں ریاست کے ووٹروں کا بھی نتیش پر سے بھروسہ اٹھنا فطری ہے۔