[]
مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک: مغرب خاص طور سے امریکہ کی سرپرستی میں غزہ پر غاصب صیہونی حکومت کے مجرمانہ حملے اور منظم نسل کشی کو چار ماہ مکمل ہوچکے ہیں جس کے نتیجے میں 25,000 سے زیادہ لوگ شہید ہوئے جن میں تقریباً دو تہائی بچے اور خواتین ہیں۔
بے گناہ فلسطینیوں کا قتل عام ہنوز جاری ہے تاہم جس موضوع سے متعلق افسوسناک خبریں اور تصاویر ان دنوں ذرائع ابلاغ اور سوشل میڈیا میں وائرل ہوچکی ہیں وہ فلسطینی شہداء کے قبرستانوں کی تباہی، لاشوں کو غائب کرنے یا مسخ کرنے سے متعلق ہیں۔
غزہ سے خان یونس تک شہداء کی قبروں کا المیہ
ایسے بہت سے شواہد اور دستاویزات موجود ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ غزہ میں زمینی کارروائی کے آغاز سے ہی صہیونی فوج نے اس پٹی میں قبرستانوں کو تباہ کرنے اور فلسطینی شہداء کی لاشوں کی بے حرمتی کرنے کی کوشش کی ہے۔
ان واقعات میں سے ایک جو گزشتہ دنوں کا ہے، جب صیہونی افواج نے غزہ کی پٹی کے جنوب میں واقع شہر خان یونس کے ناصر میڈیکل کمپلیکس کے اطراف سے اپنی بکتر بند گاڑیاں واپس نکالنے کے بہانے قبرستان کو تباہ کر دیا۔ یہ قبرستان اس سے قبل بھی صیہونی حکومت کے وحشیانہ توپخانے اور راکٹ حملوں کا نشانہ بن چکا ہے جس کے نتیجے میں سینکڑوں قبریں منہدم ہو چکی ہیں۔
صہیونی فوج نے حال ہی میں خان یونس قبرستان کی تباہی اور اس میں موجود قبروں کو جھوٹے بہانوں سے اکھاڑنے کا اعتراف کیا ہے جس نے دنیا کے مسلم اور غیر مسلم عوام کو مزید غصہ میں ڈال دیا ہے۔
اگرچہ صیہونی فوج کی جانب سے غزہ کے قبرستانوں کو تباہ کرنے کے کئی شواہد اور تصاویر اب تک شائع ہو چکی ہیں، لیکن یہ پہلا موقع ہے کہ قابض اسرائیلی فوج نے سرکاری طور پر قبروں کو تباہ کرنے کا اعتراف کیا ہے اور ساتھ ہی اس کارروائی کو جواز فراہم کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس سے قبل بھی سوشل میڈیا پر ایسی کئی تصاویر شائع ہو چکی ہیں جو غزہ میں قبرستانوں کی تباہی کی نشاندہی کرتی ہیں۔
یہ دسمبر کا وسط تھا جب غزہ میں فلسطینی حکومت کے انفارمیشن آفس نے اطلاع دی کہ صیہونی فوج نے اپنے تازہ ترین مجرمانہ اقدام میں التفاح محلے کے قبرستان سے 1,100 افراد کی لاشوں کو قبروں کی حرمت پامال کرتے ہوئے نکال لیا ہے۔
اس رپورٹ کے مطابق قبروں کی کھدائی کے بعد قبرستان پر بلڈوزر چلایا گیا جب کہ قابض فوج نے تقریباً 150 تازہ دفن شدہ لاشیں چرا کر نامعلوم مقام پر منتقل کر دیں۔ اس مسئلے کو نہ صرف فلسطینی حکام نے اٹھایا بلکہ مغربی میڈیا حلقوں میں بھی اٹھایا گیا۔
امریکی اخبار “نیویارک ٹائمز” نے اس سے قبل لکھا تھا کہ اس نے غزہ میں صیہونی حکومت کے ہاتھوں متعدد قبرستانوں کی تباہی کے حوالے سے تحقیقات کی ہیں جن میں غزہ کے ایک علاقے بیت لاہیا میں “شیخ عجلین” کا مقبرہ بھی شامل ہے۔
“بی بی سی” نے بھی غزہ میں متعدد دیگر قبرستانوں کی تباہی اور تخریب کی اطلاع دی ہے، جن میں جبالیہ کیمپ کے قریب واقع “الفلوجہ” کا مقبرہ اور غزہ کے شمال میں واقع شجاعیہ قبرستان شامل ہیں۔
اس کے علاوہ امریکی ٹی وی چینل “سی این این” نے اپنی تحقیقات کے نتائج شائع کرتے ہوئے بتایا کہ صیہونی حکومتی فوج نے اپنے زمینی حملے میں کم از کم 16 مقبروں کی بے حرمتی کی اور ان میں سے بہت سے واقعات میں لاشیں نکالی گئیں۔
صیہونی حکومت قبرستانوں اور لاشوں سے کیا چاہتی ہے؟
لاشوں اور قبروں کے ساتھ صیہونی حکومت کی فوج کے غیر انسانی رویے کو مختلف عالمی ذرائع ابلاغ بالخصوص معروف مغربی میڈیا میں شائع ہونے کے بعد اس رجیم نے اعتراف کرتے ہوئے خان یونس میں اس گھناؤنے فعل کو دہرانے کے لئے مختلف بہانے تراشے۔
اس دوران صیہونی حکام کے بے سروپا بہانوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کئی اہم منظر نامے ذہن میں آتے ہیں۔
صیہونی رجیم کا اسرائیلی قیدیوں کی لاشیں نکالنے کا دعویٰ
اناطولیہ خبر رساں ایجنسی کے رپورٹر کے سوال کے تحریری جواب میں اسرائیلی فوج نے دعویٰ کیا کہ فوج نے اہم انٹیلی جنس اور آپریشنل معلومات کے دائرے میں رہتے ہوئے اپنے قیدیوں کی لاشوں کو بعض حساس اور مخصوص مقامات سے ہٹانے کے لیے اقدامات کیے ہیں۔ یہ آپریشن اس قبرستان میں اس حکومت کے قیدیوں کی لاشوں کو دفن کرنے کے امکان کے بارے میں معلومات پر مبنی تھا۔
اسی دوران صہیونی فوج نے اعتراف کیا کہ اس کارروائی کے بعد معلوم ہوا کہ یہ لاشیں صہیونی قیدیوں کی نہیں تھیں، اس لیے انہیں واپس قبروں میں پہنچا دیا گیا۔ قابض فوج نے دعویٰ کیا ہے کہ غزہ کی پٹی میں اسرائیلی قیدیوں کو بچانا، ان کی لاشوں کو تلاش کرنا اور انہیں واپس لانا فوج کے اہم مشنوں میں سے ایک ہے اور اسی وجہ سے فوجی دستے غزہ کی پٹی میں قبروں کو کھودتے ہیں۔
فوجی اڈے اور نگرانی کے مراکز بنانے کے بہانے قبرستانوں کی تخریب
البتہ بعض رپورٹوں سے معلوم ہوتا ہے کہ صیہونیبحکومت نے بعض علاقوں میں قبرستانوں کو تباہ کر کے فوجی اڈے بنائے ہیں۔ صیہونیوں نے اس سے قبل غزہ کے علاقے شجاعیہ میں تیونس کے قبرستان کو تباہ کر دیا تھا تاکہ وہاں عارضی فوجی مرکز قائم کیا جا سکے۔ صیہونی فوج نے غزہ کی پٹی کے شمال میں واقع بیت حانون کے قبرستان میں ایک عارضی فوجی مرکز بھی قائم کیا ہے۔ جب کہ یہ قبرستان غزہ کے قدیم ترین قبرستانوں میں سے ایک ہے۔
شہداء کے جسمانی اعضاء کی چوری
لاپتہ اور مسخ شدہ لاشوں کو دیکھ کر شہداء کے جسم کے اعضاء چوری ہونے کا امکان قوی ہوتا ہے۔ یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ صیہونی حکومت نے غزہ کے شہداء کی لاشوں کو چوری کرنے کی کوشش کی ہو، بلکہ تازہ ترین واقعہ رفح میں غزہ کے 80 شہداء کی لاشیں فلسطینیوں کے حوالے کرنے کا ہے۔
حماس نے اعلان کیا کہ یہ لاشیں مسخ شدہ اور اعضاء نکالے جانے بعد پہنچائی گئیں جنہیں رفح میں دفن کیا گیا۔ قابضین نے ان شہداء کے اہم اعضاء کو چوری کیا تھا جس طرح انہوں نے پہلے جبلیہ میں قبریں کھود کر وہاں سے نئے شہداء کی لاشیں بھی چرائی تھیں۔ یہ اس حقیقت کے باوجود ہے کہ غاصب رجیم نے ابھی تک ان درجنوں شہداء کی لاشیں حوالے نہیں کیں۔
اسی سلسلے میں دو ہفتے قبل غزہ میں فلسطینی اسٹیٹ انفارمیشن آفس نے التفاح محلے کے قبرستان کی تباہی سے متعلق ایک رپورٹ شائع کرتے ہوئے لکھا تھا کہ قابض صیہونی فوج نے قبروں کو اکھاڑنے اور بلڈوزر سے اس قبرستان کو خراب کرنے کے بعد لاشیں برآمد کیں۔ تقریباً 150 شہداء کی لاشیں چرائیں جنہیں حال ہی میں سپرد خاک کیا گیا تھا۔ اس رپورٹ سے فلسطینی شہداء کے جسمانی اعضاء چرائے جانے کے شبہ کو ایک بار پھر تقویت ملی ہے۔
صرف فلسطینی ہی نہیں ہیں جو اعضاء کی چوری کے مسئلے کو دیگر جنگی مسائل کے مقابلے میں زیادہ قابل توجہ اور سنگین سمجھتے ہیں۔ بلکہ اس سے قبل عبرانی اخبار “Haaretz” نے ایک رپورٹ میں اعتراف کیا تھا کہ اسرائیلی رجیم انسانی اعضاء کی اسمگلنگ کا مرکز بن چکی ہے۔
اسی دوران روسی خبر رساں ایجنسی “سپوتنک” نے بھی رپورٹ دی کہ ایک صہیونی ڈاکٹر نے اپنی کتاب “مردوں کے اجسام پر” میں لکھا ہے کہ شہید ہونے والے فلسطینیوں کے اعضاء کو مقبوضہ علاقوں کی صیہونی یونیورسٹیوں میں طبی تحقیق اور صیہونی مریضوں کے جسموں میں پیوند کاری کے لئے استعمال کیا جاتا تھا۔
قبل ازیں یورو میڈیٹرینین ہیومن رائٹس آرگنائزیشن نے اسرائیلی فوج پر غزہ کی پٹی میں فلسطینی شہداء کے جسمانی اعضاء چرانے کا الزام عائد کرتے ہوئے بین الاقوامی سطح پر آزاد تحقیقات کا مطالبہ کیا تھا۔ امریکی ٹی وی چینل “سی این این” کے قانونی ماہرین نے بھی اعتراف کیا ہے کہ صیہونی رجیم کے فلسطینی قبرستانوں کی بے حرمتی کے اقدامات کو جنگی جرم سمجھا جا سکتا ہے۔