مقاومتی بلاک کے درمیان مکمل ہماہنگی کی وجہ سے امریکہ اور اسرائیل کی تاریخی شکست

[]

مہر خبررساں ایجنسی، سیاسی ڈیسک؛ اسرائیلی فورسز عقب نشینی کے لئے بہانے ڈھونڈ رہی ہے۔ صہیونی جنگی کابینہ اختلافات کا شکار ہے۔ غزہ میں مقاومت نے حالات کو اپنے حق میں موڑ دیا ہے اسی لئے صہیونی فوج غزہ کے شمالی علاقوں سے عقب نشینی پر مجبور ہورہی ہے۔

نتن یاہو کابینہ کے انتہاپسند وزراء بحرانی حالات میں بھی عقب نشینی کے مخالف ہیں کیونکہ اس فیصلے کو لیکوڈ پارٹی کی شکست اور پارلیمنٹ میں اکثریت کھودینے کا مترادف سمجھتے ہیں۔ صہیونی حکومت اندرونی بحران سے دوچار ہے کیونکہ مقاومت نے اپنی کامیاب کاروائیوں سے اسرائیل کے ناقابل تسخیر قلعہ ہونے کا فرضیے کو باطل ثابت کردیا ہے۔

“گریٹر اسرائیل” اور “نیل سے فرات تک” کا بیانیہ اپنی اہمیت کھوچکا ہے۔ غزہ سے فلسطینیوں کو نکالنے اور صہیونی بستیوں کی توسیع کا خواب چکنا چور ہوچکا ہے۔

جب طوفان الاقصی شروع ہوا تو غزہ کے اردگرد بستیوں پر حملہ کیا گیا جس کے نتیجے میں صہیونی حکومت یہودیوں کو اسرائیل کے دوسرے علاقوں کی طرف منتقل کرنے پر مجبور ہوا۔ شمالی سرحدوں پر حزب اللہ کی جانب سے نیا محاذ کھولا گیا جس کی وجہ سے صہیونی حکومت نے لبنان کے ساتھ ملحقہ علاقوں سے صہیونیوں کو مرکزی شہروں کی طرف منتقل کردیا۔

اگرچہ صہیونی حکام نے کئی بار غزہ کی آبادی کو منتقل کرنے اور مکمل قبضہ کرکے یہودیوں کو بسانے کا ارادہ ظاہر کرچکے ہیں لیکن القسام اور دیگر مزاحمتی تنظیموں نے اپنی کاروائیوں کے ذریعے صہیونی حکام کے خواب چکنا چور کردئے۔

فلسطینی تنظیموں نے اپنی سرزمین کا تحفظ یقینی بنایا اور صہیونی حکام کے منصوبوں کے برعکس اسرائیلی شہریوں کو وہاں سے دائمی نقل مکانی پر سوچنے پر مجبور کردیا۔ قابض صہیونی آبادکاروں نے باور کرلیا کہ ان کی حیثیت قابض کی ہے اور دنیا میں کوئی بھی جگہ ان کے لئے پرامن نہیں ہے لہذا اپنے آبائی ممالک کی طرف لوٹنے کے علاوہ ان کے پاس کوئی آپشن نہیں ہے۔

ایران نے موساد کے ہیڈ کوارٹر اور محفوظ مراکز پر حملہ کرکے شام اور اربیل میں ان کے ناپاک منصوبوں کو ناکام بنا دیا۔ سپاہ پاسداران انقلاب نے “ہم مجرموں سے بدلہ لیں گے” کے عنوان سے حملہ کرکے ثابت کیا کہ موساد اور اس کے دہشت گردانہ منصوبوں کے لیے خطے میں کوئی محفوظ جگہ نہیں ہے۔ ایران نے اربیل میں موساد کے ایک مرکز اور صیہونی حکومت سے وابستہ ایک تاجر کو نشانہ بنایا جس کا اسرائیل کے ساتھ مالیاتی لین دین 2.4 بلین ڈالر سے زیادہ تھا۔

ذرائع کے مطابق یہ شخص اسرائیل کو تیل کی برآمد، موساد کے لیے لاجسٹک سپورٹ اور موساد کے تعاون سے منصوبہ بند دہشت گردانہ سرگرمیوں میں حصہ لینے میں ملوث تھا۔ یہ واقعہ کرمان میں دہشت گردی کی کارروائیوں سمیت حالیہ واقعات کے بعد پیش آیا۔

عراق کے ساتھ تاریخی تعلقات کے احترام کی وجہ سے ایران نے کردستان میں موساد کی سرگرمیوں کے بارے میں جامع معلومات فراہم کی ہیں۔ یہ کارروائی خطے میں اسرائیل کی کارروائیوں کو روکنے میں موثر ثابت ہوئی ہے۔ مزاحمتی محاذ کو متحد کرنے اور غزہ کی پٹی پر حملوں کا جواب دینے کی کوشش میں یمنی انصار اللہ نے بحیرہ احمر اور آبنائے باب المندب پر مؤثر طریقے سے کنٹرول حاصل کیا اور درجنوں تجارتی بحری جہازوں کی اس راستے پر آمد و رفت روک دی ہے۔ صیہونی حکومت اور اسرائیل کی ایلات سمیت اہم اور اسٹریٹجک بندرگاہوں کو بند کو بند کردیا۔

ذرائع کے مطابق تجارتی بحری جہاز اب مبینہ طور پر یمنی فوج کے حملے کے خوف سے امریکی بحریہ کے ساتھ جانے سے گریز کر رہے ہیں۔ کسی قسم کے تصادم سے بچنے کے لئے یہ کمپنیاں اسرائیل سے تعلقات سے انکار کرتی ہیں۔ اسی وجہ سے امریکہ اور برطانیہ نے یمنی فوج پر حملہ شروع کیا ہے تاہم انصاراللہ کے عزم میں کوئی کمی نہیں آئی ہے۔ یمن پر حملوں میں ناکامی کے بعد امریکہ نے مجبور ہوکر انصاراللہ کو دہشت گرد تنظیموں کی فہرست میں شامل کردیا ہے۔

امریکہ اس بات کی طرف متوجہ نہیں ہے کہ پابندیاں یمنیوں کو ان کے عزائم سے روکنے کے لئے کسی بھی طور پر کامیاب حکمت عملی نہیں ہیں۔

مقاومتی بلاک مختلف اور متفاوت حکمت عملی سے کام لے رہا ہے۔ مقاومت کا اصلی ہدف غزہ پر جارحیت کا خاتمہ اور اسرائیل کی شہہ رگ کو کاٹنا ہے جس کے بارے میں مقاومتی تنظیموں کے درمیان مکمل ہماہنگی پائی جاتی ہے۔

محمد علی صنوبری

ایرانی سینیئر تجزیہ نگار

[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *