[]
ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی
میں عموماً رات ساڑھے دس بجے کے بعد فون نہیں اٹھاتا – ایک رات سونے کی تیاری کر رہا تھا کہ اچانک موبائل کی گھنٹی بجی – فون نمبر سے تھا ، اس کا مطلب کہ وہ کسی غیر شناسا کا تھا – میں نے اٹھا لیا تو ایک خاتون کی آواز تھی :” مولانا صاحب ! میں بہت پریشان ہوں – مجھے مناسب مشورہ دیجیے – ‘‘۔
میں نے کہا :” اپنی پریشانی بتائیے – “۔
خاتون نے روتے ہوئے کہا :” میری شادی کو ڈیڑھ برس ہونے کو ہیں – سسرال مجھے اچھی نہیں ملی – میری ساس ہر وقت مجھے طعنہ دیتی رہتی ہیں – مجھے کام چور اور نکمّی کہتی ہیں – میرے سر میں درد رہتا ہے ، لیکن وہ کہتی ہیں کہ میں بہانہ بناتی ہوں – میرے شوہر چپ رہتے ہیں ، وہ کبھی میری طرف سے نہیں بولتے – چھ مہینے ہوئے ، میں ناراض ہوکر اپنے میکے آگئی ہوں – انھوں نے میری خبر نہیں لی – “۔
خاتون تھی کہ بولے چلی جارہی تھی ، ایسا معلوم ہورہا تھا کہ ٹیپ ریکارڈر کھل گیا ہے – درمیان میں اس کی سسکیاں بھی سنائی دے رہی تھیں –۔
میں نے اسے مزید بولنے کا موقع نہیں دیا اور الٹا سوال کردیا : ” یہ بتائیے ، اس عرصے میں آپ نے کتنی بار اپنے شوہر کی خبر لی؟ کتنی بار اپنی ساس کا حال معلوم کیا؟ “
خاتون نے فوراً کہا :” میں کیوں خبر لوں؟ وہ لوگ مجھے بالکل نہیں چاہتے – مجھے تو معلوم ہوا ہے کہ میری ساس اپنے بیٹے کے لیے دوسرا رشتہ دیکھ رہی ہیں – “۔
میں نے اس کی بات پر توجہ نہ دیتے ہوئے کہا :” آپ کی ساس اچھا کررہی ہیں – وہ دیکھ رہی ہیں کہ ان کی بہو اپنے شوہر کا بالکل خیال نہیں کررہی ہے؟ شادی کس لیے کی جاتی ہے؟ بیٹا شادی کے بعد بھی بیوی سے محروم ہے تو اگر ماں اس کے لیے دوسرا رشتہ دیکھ رہی ہے تو اس میں غلط کیا ہے؟ “
خاتون کو شاید میری یہ بات پسند نہیں آئی ، لیکن اس نے اس سے بے پروا ہوکر کہا :” میں اس رشتے کو بالکل پسند نہیں کرتی تھی ، لیکن میرے ماں باپ نے زبردستی میری شادی یہاں کردی – میں تو دوسرے سے محبت کرتی تھی – اس نے مجھ سے نکاح کا وعدہ بھی کرلیا تھا – “۔
میں نے کہا :” آپ نے غلط کیا کہ شادی کے بعد بھی سابقہ محبت کو اپنے دل میں بسائے رہیں – شادی کے بعد اپنی محبت کو صرف شوہر اور سسرال والوں سے وابستہ کرلینی چاہیے – شوہر کے پاس بھی وہی کچھ مل سکتا ہے جسے محبوب سے ملنے کی امید ہوتی ہے – کیا آپ کی ماں نے آپ کو کبھی نہیں ڈانٹا تھا ؟ کیا انھوں نے کبھی نہیں جھڑکا تھا ؟ اگر ماں کی ڈانٹ ڈپٹ آپ کو بری نہیں لگی تھی تو ساس کی کیوں بری لگتی ہے؟ “
” مولانا صاحب ! میں اب کیا کروں؟ “ خاتون کی آواز بھرّائی ہوئی تھی –۔
میں نے جواب دیا :” آپ کسی کے ساتھ اپنی سسرال پہنچ جائیے ، وہاں ساس کے گلے لگ کر رو لیجیے اور معافی مانگ لیجیے – سارے گلے شکوے دور ہوجائیں گے – “
’’مولانا صاحب ! یہ کرنا تو بہت مشکل معلوم ہورہا ہے – میں سوچتی ہوں ، کر پاؤں گی یا نہیں _“۔
” مولانا صاحب ! میری خلع ہوگئی ہے – “۔
میرے منھ سے فوراً نکلا :” انا للہ وانا الیہ راجعون “
آخر کیوں؟
خاتون نے بتایا : ”میں نے اپنے شوہر سے گھر واپسی کی یہ شرط رکھی تھی کہ مجھے الگ گھر لے کر دیجیے، – میں ساس کے ساتھ نہیں رہ سکتی، – انھوں نے یہ شرط ماننے سے انکار کردیا – کہا : میری ماں اکیلی ہے – میں اسے اپنے سے اکیلے نہیں رکھ سکتا – اس بنا پر میں نے خلع لے لی۔ – اس دوران میرے یہاں ولادت ہوگئی – وہ بچہ میرے ہی ساتھ ہے – میرے بھائی بھابھی میرا بہت خیال رکھتے ہیں – “۔
میں نے کہا : ” آپ نے بہت غلط شرط رکھی اور بہت نامناسب فیصلہ کیا – بیس پچیس برس کے بعد آپ اپنے اس بیٹے کی شادی کریں گی اور بہو گھر میں آتے ہی کہے گی کہ میں ساس کے ساتھ نہیں رہ سکتی تو آپ کے اوپر کیا گزرے گی؟! بھائی اور بھابھی چاہے جتنا خیال رکھیں ، لیکن وہ شوہر کا بدل نہیں بن سکتے – “
” مولانا صاحب! میری کچھ سمجھ میں نہیں آرہا ہے؟ میں کیا کروں؟ میں بہت پریشان ہوں – ڈپریشن کا شکار ہوگئی ہوں – “
” اللہ تعالیٰ آپ کے مسائل حل کرے – “ میں نے یہ کہہ کر گفتگو ختم کردی –۔
چند ماہ گزر گئے – ایک دن پھر فون آیا -” مولانا صاحب ! میں بہت زیادہ پریشان ہوں – میرے محبوب نے مجھے دھوکا دیا – “
میں نے کہا :” کہیے ، کیا ہوا؟ “
خاتون نے بتایا : ” جس شخص سے مجھے محبت تھی ، میں نے اس سے اسی وقت رابطہ کیا تھا جب میرا شوہر اور سسرال سے تنازعہ چل رہا تھا – اسی کے اکسانے پر ہی میں نے خلع کا مطالبہ کیا تھا – خلع ہوجانے کے بعد بھی اسے بتایا – اس نے کہا :” میں اپنے ماں باپ سے بات کروں گا – “ کچھ کچھ وقفے سے اس سے رابطہ کرتی رہی ، لیکن وہ برابر ٹالتا رہا – اس دوران میں نے اپنا خرچ چلانے کے لیے کچھ کام کرنا شروع کردیا – اب اس سے رابطہ کیا تو وہ کہتا ہے کہ میں کام کرنے والی لڑکی سے شادی نہیں کروں گا –۔
” مولانا صاحب! بتائیے ، جس کے لیے میں نے اپنی ازدواجی زندگی برباد کی ، اسی نے مجھے دھوکا دے دیا – “
میری سمجھ میں نہیں آرہا تھا – میں کیا کہوں؟ کیا مشورہ دوں؟ میں نے ہمّت جُٹاکر کہا :” ماضی پر پچھتانے سے اب کچھ حاصل ہونے والا نہیں ہے۔ – اب آپ اپنی نئی زندگی کی شروعات کیجیے – جیسا بھی رشتہ مل جائے ، انکار نہ کیجیے – کوئی کنوارا نوجوان مل جائے تو بہتر ہے ، نہ ملے اور شادی شدہ ملے ، ایسا شخص ملے جس کی بیوی کا انتقال ہوچکا ہو ، جو بھی ملے ، اس سے نکاح پر تیار ہوجائیے، – بے نکاحی زندگی گزارنا بہتر نہیں ہے اور بھائی بھابھی کے سہارے زندگی گزارنا بھی ٹھیک نہیں – اللہ تعالیٰ آپ کے حالات سازگار کرے ، آمین“۔
٭٭٭