[]
مولانا حافظ و قاری سید صغیر احمد نقشبندی
(شیخ الحدیث جامعہ نظامیہ)
حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ ۱۴؍ رجب المرجب ؍ سن۵۳۷ھ دوشنبہ کے روز صبح صادق کے وقت سجز میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم اپنے ہی وطن میں جلیل القدر علماء ومشائخ سے حاصل کی فراغتِ تعلیم کے بعد تز کیہ قلب کی خاطر شیخ کامل کی تلاش میں کئی شہروں کا سفر کیا، سلسلہ چشتیہ کے امام حضرت خواجہ عثمان ِ ہارونی ؒکی سنگت میں سلوک کے مدارج طے کئے اور انہیں سے بیعت وخلافت حاصل کی، حضرت خواجہ علیہ الرحمہ نے کتاب ’’انیس الارواح‘‘ میں اپنی بیعت کا حال خود ان الفاظ میں قلم بند کروایا:
’’مسلمانوں کے دعا گو فقیر معین الدین حسن سجزی ؒ کو شہر بغداد کی مسجد(حضرت خواجہ جنید بغدادیؒ ) میں قطب عالم حضرت شیخ عثمان ہارونیؒ کی قدم بوسی نصیب ہوئی اس وقت مشایخ ِ عظام وصوفیائے کرام بھی حاضر تھے حضرت نے میری طرف توجہ فرمائی اور ارشاد فرمایا کہ دورکعت نفل ادا کرو ،میں نے فوراً حکم کی تعمیل کی ،پھر فرمایا :قبلہ رخ ہو کر بیٹھ جائو ، میں نہایت ادب سے قبلہ رخ ہوکر بیٹھ گیا پھر ارشاد ِ شیخ ہوا’’سورہ بقرہ‘‘ کی تلاوت کا، میں نے بڑے ہی اہتمام کے ساتھ سورہ بقرہ پڑھی ،تب فرمایا :۲۱ ؍ مرتبہ کلمہ’’ سبحان اللہ ‘‘کا وِرد کرو ، میں نے اس کی بھی تعمیل کی ،ان امور کی ادائیگی کے بعد حضرت قبلہ نے ایک خاص وضع کی ترکی ٹوپی (جو کلاہ چہار ترکی کہلاتی ہے )میرے سر پر رکھ دی ،اپنی خاص کملی مجھے اڑھائی اور فرمایا بیٹھ جا ؤ،میں فوراً بیٹھ گیا،پھر فرمایا ایک ہزار مرتبہ سورہ اخلاص پڑھ لو، میں نے سورہ اخلاص کو ایک ہزار مرتبہ پڑھ لیا ،
غرض کہ دیگر اوراد ،وظائف پڑھنے کی تلقین فرمائی‘‘۔ خواجہ اجمیری ؒ چند سالوں تک اپنے پیر و مرشد کی خدمت میںرہے۔ حضرت خواجہ عثمان ہارونی ؒنے آپ کو سند ِولایت وخرقہ خلافت عطا فرمائی اور آپ نے اپنا مصلیٰ،نعلین اور عصاوغیرہ تبرکات ِ پیران عظام بھی مرحمت فرمائے ۔ سن ۵۸۳ھ حضرت خواجہ معین الدین سجزی ؒ کو مکہ مکرمہ و مدینہ منورہ کی حاضری نصیب ہوئی، مسجد نبوی میں عبادات وریاضات میں مصروف رہے، وہاں کے قیام میں ایک ایسی نورانی گھڑی آئی جس میں رسول پاک ﷺ کی بارگاہ سے بشارت ملی، سیر الاقطاب میں ہے: روضِ رسول سے مــژدہ ملا کہ اے معین الدین تم میرے دین کے معین (مددگار) ہو میں نے تمہیں ہندوستان کی ولایت عطا کی وہاں کفر وظلمت پھیلی ہوئی ہے، تم اجمیر جائو تمہارے وجود سے کفر وظلمت دور ہوگی اور اسلام رونق پذیر ہوگا (سیر الاقطاب) اس بشارت عظمیٰ سے حضرت غریب نواز پر وجدانی کیفیت طاری ہوگئی مسرت وشادمانی کی انتہا نہ رہی، بارگاہ نبوت سے مقبولیت کا مژدہ طریقت اور سلوک کی سخت منزلوں کا تحفہ تھا۔
لیکن وہ کچھ حیران ومتردد بھی ہوئے کہ شہر اجمیر کہاں ہے، سمت سفر کیاہوگی۔ مدینہ سے اجمیر کی مسافت کتنی ہے، راستہ کے پیچ وخم کیا ہیں؟ اسی فکر میں نیند آگئی اور خواب میں تاجدارِ کونین حضرت محمد مصطفی ﷺ کی زیارت کا شرف عظیم حاصل ہوا اور آنحضرت نے آپ کو ایک ہی نظر میں شرق سے غرب تک سارا عالم دکھا دیا، تمام بلادو امصار آپ کی نگاہوں کے سامنے تھے، اجمیر وہاں کا قلعہ اور پہاڑیاں نظر آنے لگیں سرکار نے ایک انار عطا کر کے ارشاد فرمایا ہم تمہیں خدا کے سپرد کرتے ہیں (مونس الارواح) جب بیدار ہوئے تو فرمان رسالت کے بموجب چالیس اولیاء کے ساتھ ہندوستان کی طرف رخت سفر باندھا۔ یہ خواب رب کریم کی جانب سے بشارتِ الٰہی ہے، چنانچہ باری تعالیٰ کا فرمان ہے: لَہُمُ الْبُشْرَی فِيْ الْحَیْاۃِ الدُّنْیَا وَفِيْ الآخِرَۃِ (سورہ یونس) اولیاء اللہ کیلئے دنیوی زندگی اور اخروی زندگی میں خوش خبری ہے۔ حضرت ابوالدرداء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں اس آیت شریفہ کے متعلق رسول اعظم ﷺ سے سوال کیا تو آپؐ نے ارشاد فرمایا : دنیا کی زندگی میں بشارت وہ سچے خواب ہیں جو خود مومن دیکھتا ہے یا مومن کو وہ خواب دکھایا جاتا ہے(ترمذی)
آپ کی تبلیغ وارشاد میں جہاد با للسان‘ جہاد بالعلم‘ جہاد بالعمل ‘ جہاد بالحکمت ومصلحت کے علاوہ کرامتوں کا ایک بہت بڑا حصہ رہا، جس کی وجہ سے لاکھوں لوگ آپ کے دستِ مبارک پر مشرف بہ اسلام ہوئے۔ ایک قول کے مطابق نوے لاکھ لوگ آپ کے دست حق پرست پر اسلام قبول کئے ۔چونکہ ہندوستان کے لوگ ذرہ ذرہ کو خدا سمجھتے تھے، جنگل کا ہر بڑا درخت، زمین کا ہر خوف ناک کیڑا، پہاڑ کا ہر سیاہ پتھر، دریا کا ہر مہیب جانور اور چاند، سورج، ستارے، آگ، پانی، وغیرہ سب ان کے خدا تھے، کسی کو دیوی سمجھتے تھے، کسی کو دیوتا ،کسی کو خدا کا مظہر خیال کرتے تھے۔ جو قوم ہر چمک دار چیز کے سامنے جھکنے والی ہو اور اس کی پوجا کرنے والی تھی ان پر کرامتوں کا بڑا اثر ہوا، کرامتوں کا وقوع اولیاء اللہ سے ہوتا ہے وہ اللہ کی جانب سے ایک نعمت ہے، جو قوم کی ہدایت کیلئے عطا کی جاتی ہے۔ کرامت اُن خلافِ عادت اَفعال کو کہتے ہیں جو مومنین ،صالحین اور اولیائے کرام سے صادر ہوتے ہیں۔
تاریخ اِسلام اَولیا ء وصوفیا ء کی بے شمار کرامات سے بھری پڑی ہے ۔ مثلاسید نا سلیمان ؑ کے صحابی حضرت آصف بن بر خیاؒ کا پلک جھپکنے سے قبل ملکہ ء سبا کا تخت آپ کی خدمت میں پیش کر دینا۔ امیرالمومنین حضرت عمر بن الخطاب ؓ کا دورانِ خطبہ منبر پر ہی میدان ِجنگ کا مشاہدہ کرنا اور لشکر اسلام کے سپہ سالار ساریہ رضی اللہ عنہ کو عسکری ہدایت دینا اور حضرت خواجہ اجمیرؒکے ہاتھ پر لاکھوں ہندوؤں کا قبول اسلام اُن کی کرامات جلیلہ میں سے ہے ۔ یہ حقیقت ہے کہ حق وصداقت کو قبول کرنا عقل اور رُوحانی دونوں احوالوں سے انسان کا بنیادی مسئلہ رہا ہے ۔عقل وشعور کے سارے دائرے انسان کے اسی بنیادی مسئلے کی ماہیتّ اور اصلیّت کو سمجھنے کے لئے مصروف عمل ہیں ۔تاریخِ ارتقائے نسل انسانی اس امر کی شاہدِعادل ہے کہ حق وصداقت کو قبول و تسلیم کرنے کے حوالے سے انسانی فطرت ہمیشہ ان طریقوں سے مانوس رہی ہے ۔
ایک یہ کہ مدّعیٔ حق کی صداقت اور حقاّنیت دلائل وبراہین کے ساتھ ساتھ عقلی بنیادوں کے علاوہ اذنِ الٰہی سے اولیاء اللہ کے دستِ اقدس سے ایسے محیر العقول اور حیرت انگیز اُمور صادر ہوں جو ظاہری اَسباب وعلل کے محتاج نہ ہوں حتیٰ کہ اُن کا تعلق اکتسابِ علم وفن سے بھی نہ ہو ۔ عوام وخواص اُن کے مقابلے میں نہ صرف عاجز آجائیں بلکہ اَسباب و علِل کے دائرے میں رہتے ہوئے اُن کی تخلیق و ایجاد سے بھی کلیۃََ بے بس ہو جائیں۔ جب یہ لوگ اللہ کے برگزیدہ بندوں کی کرامات کا کھلی آنکھوں سے مشاہدہ کرتے ہیں اور اُنہیںظاہری اَسباب وعِلل سے مادراء دیکھتے ہیں تو وہ یہ یقین کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں کہ اولیاء اللہ کی اُن کرامات میں اللہ کا ارادہ ضرور کار فرما ہے ۔ یہ اُسی کی قدرت کاملہ سے ظہور پذیر ہورہے ہیں جو ہر چیز پر قادر اور اس کائنات رنگ وبو کا خالق ومالک ہے۔
جب حضرت خواجہ غریب نواز کا نورانی قافلہ اجمیر پہنچا تو آپؒ نے شہر سے باہر ایک سایہ دار مقام پر قیام پذیر ہونا چاہا، راجہ کے ملازمین نے روکتے ہوئے کہا: آپ یہاں قیام نہیں کرسکتے اس لئے کہ یہاں ہمارے راجہ کے اونٹ بیٹھتے ہیں، حضرت پر ان کی یہ بات ناگوار گزری ، فرمایا میں یہاں سے جاتا ہوں اونٹوں کو بیٹھے ہی رہ جانے دو ، یہ فرما کر آپؒ کھڑے ہوگئے اور انا ساگر کے پاس تشریف لائے جہاں اُس وقت بت خانوں کی کثرت تھی، آپ ؒ نے ایک بلند مقام پر (جو اِس وقت حضرت کی چلہ گاہ کے نام سے موسوم ہے) قیام فرمایا جب شام ہوئی تو راجہ کے اونٹ حسب معمول اپنی جگہ پر آئے اور بیٹھ گئے ، حضرت کے ارشاد کے مطابق ایسے بیٹھے کہ بیٹھے ہی رہ گئے، اٹھانے پر بھی نہ اٹھے، ایسا محسوس ہوتا تھا کہ انکے جسم زمین سے چپک گئے ہیں، صبح کے وقت جب شتربانوں نے اونٹوں کو اٹھانا چاہا تو وہ اٹھ نہ سکے ، اس بات نے انہیں سخت حیرانی میں مبتلا کردیا ،
انہوں نے آپس میں مشورہ کیا اور اس بات پر اتفاق کیاکہ کل ہم نے جس فقیر کو یہاں ٹھہرنے نہ دیا اس کی بددعا لگ گئی ہے۔ پھر وہ سب کے سب حضور کی خدمت میں آئے اور معذرت خواہ ہوئے، حضرت نے ازراہِ شفقت ارشاد فرمایا: جائو بارگاہ الٰہی سے تمہارے اونٹوں کے اٹھنے کا حکم ہو چکا ہے، جب یہ شتربان اونٹوں کے گلہ میں پہنچے تویہ حیرت انگیز منظر دیکھ کر ششدر رہ گئے کہ سارے اونٹ ازخود اٹھ گئے ہیں۔ (خزینۃ الاصفیائ، مونس الارواح) اس واقعہ کی شہرت شہر اجمیرا ور اس کے اطراف و اکناف پہنچی توکئی ہزار غیر مسلم آپ کے دست حق پرست پر اسلام قبول کئے۔ اور کچھ غیر مسلم حضرات میں اضطراب پیدا ہوگیا، اس درویشِ کامل کے درود مسعود سے قدیم روایتی دھرم کی بنیادیں متزلزل ہونے لگیں۔ ایک جماعت راجہ پر تھوی راج کے پاس آئی اور کہا یہ اجنبی شخص جو ہمارے شہر کے مندروں کے پاس سکونت اختیار کیا ہوا ہے اس مقام پر اس کا قیام کرنا مناسب نہیں ، کیونکہ وہ ہمارے دھرم سے جدا گانہ دین رکھتا ہے، اس کو شہر کے باہر کرنے کا حکم صادر کرنا چاہئے۔
مہاراجہ پرتھوی راج نے آپ کو یہاں سے نکالنے کی انتھک کو شش کی لیکن وہ ناکام رہا ،تب اس نے ملک کے بڑے بڑے نامور جادوگروں کو آپ سے مقابلہ کیلئے جمع کیا تاکہ ناکامی و رسوائی کے بعد یہ از خود چلے جائیں، مقابلہ کیلئے سارے جادوگر اکھٹے ہوئے جس میں سب سے بڑا جادو گر ’’جوگی جے پال‘ ‘تھا ، اس کو اپنے جادو پر انتہائی ناز وگھمنڈ تھا، جب اس نے اور اس کے چیلوں نے حضرت خواجہ کے خلاف جادو کے کرشموں کا آغاز کیا تو پہاڑ کی بلندیوں سے ہزاروں کی تعداد میں زہریلے سیاہ سانپ ہوا میں لہراتے ہوئے حضرت خواجہ ؒ کی جانب بڑھے ، آپؒ نے اپنے ارد گرد ایک حفاظتی دائرہ بنایاتھا ، وہ سارے سانپ دائرہ کی لکیر کے قریب آکر بے دم ہوکر رک گئے۔
جے پال کا یہ سحرناکام ہوا تو اس نے اپنے فن کے زور سے آگ کی بارش برسانی شروع کی، جس کی وجہ سے کچھ درخت جل کر راکھ ہوگئے لیکن دائرہ حصار میں جتنے آپؒ کے معتقدین تھے وہ تمام آپ کے ساتھ اس آگ کے شعلوں سے بالکل محفوظ رہے۔ جب آتش سحر سے حضرت خواجہ ؒ اور ان کے ساتھیوں کو کچھ نقصان نہیں پہنچا تو اس نے خود اوپر کی طرف اڑھتے ہوئے آپ کو نقصان پہنچانا چاہا ، جس وقت وہ فضا میں پرواز کر رہا تھا اس کے اس عمل کو دیکھ کر لوگ دنگ تھے ، تو خواجہ ہند الولی نے اپنے نعلین کو حکم دیا کہ جائو مغرور جے پال کو نیچے اتار لائو ۔ یہ فرمان سنتے ہی نعلین پرندوں کی طرح فضا میں اڑھتے ہوئے جادوگر جے پال کے سر پر مارتے ہوئے اس کو حضرت خواجہ کے پاس لے آئے۔ جے پال نے حضرت غریب نواز کی حقانیت کو دیکھ کر فورا ً عرض کرنے لگا: مجھے بھی دامنِ اسلام میں داخل کرلیجئے۔اس کے ساتھ اس کے کئی ہزار شاگردوں نے اسلام قبول کرلیا۔ (خز ینۃ الاصفیاء )
خواجہ علیہ الرحمۃ ساربانوں کے اٹھانے سے انا ساگر کے کنارے تشریف لے گئے تھے، یہ مقام خواجہ علیہ الرحمہ کو بہت ہی پسند آیا، اس مقام کے چاروں طرف اس زمانہ میں بڑے بڑے مندر تھے، ایک مندر ان میں سے بالخصوص بہت ہی بڑا تھا، جس میں راجہ درباریوں سمیت روزانہ بتوں کے آگے جبین نیاز خم کیا کرتا تھا، اس مندر کے اخراجات کے لئے راجہ نے کئی گاؤں وقف کئے ہوئے تھے، کہتے ہیں کہ ان مندروں میں ہر رات ساڑھے تین سومن تیل جلا کرتا تھا، بے شمار سینکڑوں پجاری ہر وقت بتوں کے آگے دست بستہ کھڑے رہتے تھے، بھلاوہ خواجہ علیہ الرحمہ اور ان کے ہمراہیوں کا ایسے مقام پر جم جانا کیسے پسند کر سکتے تھے۔
جب آپ انا ساگر پر جا کر مقیم ہوئے، تو آپ کے ہمراہیوں نے وہاں دو چار پرندے شکار کر کے تالاب کے کنارے ہی ان کے کباب تیار کئے، برہمن پہلے سے ہی رنجیدہ تھے، اب کباب تیار ہوتے دیکھ کر آگ بگولا ہو گئے، جمع ہو کر لڑنے کیلئے تیار ہو گئے، خواجہ علیہ الرحمہ نے جب یہ ملاحظہ فرمایا، تو اُٹھ کر تالاب کے پانی سے وضو کیا اور رب کی بارگاہ میں دعاء کی تو تالاب بالکل خشک بے آب ہو گیا، یہ دیکھ کر مشرکین سخت پریشان وسراسیمہ ہوئے، بدحواسی کے عالم میں راجہ کے پاس دوڑتے ہوئے گئے، اور تمام ماجرا کہہ سنایا، اور شکایت کی کہ ان لوگوں کا ہمارے صنم خانوں کے قریب قیام پذیر ہونا سخت خطر ناک ہے، ان کو سرکاری طور پر یہاں سے ہٹا دیا جائے، راجہ نے حکم دیا کہ تم ان کو سرکاری سپاہیوں کی مدد سے وہاں سے ہٹادو۔
راجہ کا یہ حکم سن کر سب لوگ ہتھیار، تلوار، لکڑی، پتھر جس کے ہاتھ میں جو کچھ آیا لے کر خواجہ علیہ الرحمۃ کو وہاں سے نکال کیلئے روانہ ہوئے، جب وہ خواجہ علیہ الرحمۃ کے قریب پہنچے، تو آپ حالت نماز میں تھے، خدام مشرکین کے ہجوم کو دیکھ کر گھبراگئے لیکن خواجہ علیہ الرحمہ نے پورے سکون اور اطمنان کے ساتھ نماز ادا کی، پھر کھڑے ہو کر خاک کی ایک مٹھی پر آیت الکرسی پڑھ کر ان کی طرف پھینکی، جس پر وہ خاک پڑی، اس کا جسم وہیں شل ہو گیا، حس و حرکت کی طاقت مفقود ہوگئی۔ اسی وجہ سے اس میں سے کئی لوگ دائرہ اسلام میں داخل ہوگئے۔ آج دوسرے ممالک کے مقابلے میں سب سے زیادہ مسلمانوں کی تعداد ملک ِ ہندوستان میں ہے جو تقسیم سے قبل کا ہے۔ یہ سب حضرت خواجہ اجمیری ؒ کے علمی، روحانی اور اصلاحی کاوشوں کا نتیجہ ہے جن کا فیضان آج بھی ہند کے طول وعرض میں جاری وساری ہے۔
٭٭٭