[]
سوال:ہم لوگ سوشل میڈیا یا الیکٹرانک میڈیا پر بعض دفعہ خبریں سن لیتے ہیں، خبر میں کوئی خلاف شرع بات نہیں ہوتی ہے؛
لیکن خبر پڑھنے والی خاتون ہوتی ہے، تو ایسی نیوز ریڈر سے خبر سنی جا سکتی ہے؟(محمد شوکت، ملک پیٹ)
جواب:اگر مسلمانوں کا کوئی اپنا یوٹیوب چینل یا نیشنل چینل ہو تو ان کو چاہئے کہ اس کام کے لئے کسی مرد کو رکھیں؛
لیکن اگر آپ کا اپنا چینل نہ ہو اور اپنے کام اور ذمہ داری کے اعتبار سے آپ کو خبریں سننی چاہئے تو اپنی نگاہ کو پست رکھنے ہوئے خبر سنی جا سکتی ہے؛
کیوں کہ اس میں مقصد نیوز ریڈر کو دیکھنا نہیں ہے، نیوز سننا ہے، موجودہ دور میں ایک حد تک خبریں سننا اور اس سے آگاہ رہنا ضرورت میں داخل ہے، جو اخبارات پڑھے جاتے ہیں،
اور ان میں بعض اوقات دینی اور اخلاقی مضامین لکھے جاتے ہیں، ملی مسائل پر گفتگو ہوتی ہے، وہ بھی عام طور پر بدقسمتی سے خواتین کی تصویروں سے خالی نہیں ہوتی ہیں؛ اس لئے یہ ابتلاء عام کی شکل ہے۔