[]
مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک: یمن کی انصار اللہ کے سربراہ “عبدالملک الحوثی” کو مہر خبررساں ایجنسی کے بیک وقت دنیا کی چھے زبانوں (عربی، فارسی، انگریزی، ترکی، کرد اور اردو) میں کئے گئے سروے میں 2023 کی سب سے بااثر شخصیت کے طور پر منتخب کیا گیا۔
لیکن عبدالملک الحوثی ہی کیوں؟ آئیے جانئے مہر نیوز کی اس رپورٹ میں۔
ان کا پورا نام “سید عبدالملک بدر الدین الحوثی” ہے۔ 1979 میں یمن میں پیدا ہوئے۔
2004 میں جب ان کی عمر صرف 25 سال تھی انہوں نے اپنے بھائی کی شہادت کے بعد یمن کی انصار اللہ کی قیادت سنبھالی اور سابق آمر علی عبداللہ صالح کی حکومت کے خلاف لڑے جسے سعودی عرب اور امریکہ کی حمایت حاصل تھی۔
ان کے والد علامہ بدر الدین یمن کی انصار اللہ کے روحانی پیشوا ہیں۔ 2004 سے عبدالملک الحوثی نے عبداللہ صالح کی حکومت کے خلاف انصار اللہ کی جنگوں کی قیادت کی۔سال 2009 اور 2010 علی عبداللہ صالح کی حکومت کی جانب سے تحریک انصار اللہ کو ختم کرنے کے لئے حملوں کے عروج کے سال تھے جو بالآخر یمن میں انقلاب کی فتح اور صنعاء حکومت کی صورت میں انصار اللہ کے اقتدار کا باعث بنیں۔
دشمن کے خلاف مزاحمت تحریک عاشورہ سے سیکھی
ان کی سب سے اہم خصوصیات میں سے ایک مضبوط ایمان کا ہونا اور دشمنوں کا مقابلہ کرنے کے لئے امام حسین کی تحریک عاشورہ پر عمل کرنا ہے۔
عبدالملک الحوثی کہتے ہیں: “ہمارا مشترکہ دین، اسلام ہمیں امام حسین علیہ السلام کی طرح دشمنوں کے خلاف کھڑے ہونے کی ترغیب دیتا ہے۔”
اسی عاشورا کی سوچ نے یمن کو آٹھ سال تک سعودی عرب کی امریکی حمایت میں جارحیت کے خلاف مزاحمت کا حوصلہ بخشا اور نہ صرف شکست نہیں کھائی بلکہ ریاض کو مجبور کیا کہ وہ یمن کے خلاف جنگ کو ختم کرنے کی کوشش کرے۔
آج سعودی عرب انصار اللہ کو تسلیم کرنے پر مجبور ہے اور سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے صنعا کی انصار اللہ سے وابستہ قومی سالویشن گورنمنٹ کے وفد سے سعودی عرب میں ملاقات کی۔
بلاشبہ آٹھ سالہ جنگ میں سید عبدالملک الحوثی کی مضبوط قیادت سعودی عرب کے خلاف یمنیوں کی کامیابی کی سب سے اہم وجہ تھی۔
شہید مقاومت جنرل قاسم سلیمانی سے عقیدت اور خراج تحسین
عبدالملک الحوثی بھی ان لوگوں میں شامل ہیں جنہوں نے شہید سلیمانی کے عظیم کردار کی تعریف کی۔
شہید سلیمانی کی پہلی برسی کے موقع پر ایک پیغام میں انہوں نے لکھا: “شہید سلیمانی انتظار (شہادت کی تڑپ) کے مرحلے میں ثابت قدم رہے اور شہید سلیمانی کا اللہ تعالی کے ساتھ خلوص ان کے پختہ عزم اور جد و جہد سے عیاں تھا۔ وہ اسلام کے ایک لازوال سپاہی تھے جو جہاد کے تمام میدانوں میں اپنی انتھک جد وجہد اور ایمان کے ساتھ موجود رہے۔
صیہونی رجیم کے خلاف غزہ کے مظلوم عوام کا عملی دفاع
اس سال کی سب سے بااثر شخصیت کے طور پر سید عبدالملک الحوثی کے انتخاب میں جس چیز نے سب سے زیادہ اثر ڈالا، وہ ان کا غاصب صیہونی رجیم کے خلاف غزہ کے مظلوم عوام کا عملی دفاع تھا۔
طوفان الاقصیٰ کے پانچویں دن یمنی حکومت نے ایک بیان جاری کرکے صیہونی رجیم کو ’’سرپرائز کا انتظار کرو‘‘۔ ہم راستے میں ہیں! کا عبرت ناک پیغام دیا۔
اور بہت جلد ثابت ہو گیا کہ عبدالملک الحوثی کے ساتھیوں نے اپنا وعدہ پورا کیا۔
یمن کی انصار اللہ کے رہنما نے غزہ کے عوام کے خلاف صیہونی حکومت کی جنگ کے پہلے دنوں سے ہی کھل کر اس جارحیت کی مذمت کی اور خبردار کیا کہ اگر غزہ کے خلاف جرائم جاری رہے تو یمنی بھی مقبوضہ فلسطین پر حملہ کریں گے۔
عبدالملک الحوثی کا جدہ میں ہونے والے او آئی سی کے غیر موثر اجلاس پر تنقیدی تنصرہ زبان زدعام ہوگیا: “تمام مسلمانوں کی نمائندگی کا دعویٰ رکھنے والی او آئی سی نے غزہ کی حمایت کے لیے عملی موقف کے بجائے صرف ایک بیان جاری کرنے پر اکتفا کیا۔ کیا یہ طاقت ڈیڑھ ارب مسلمانوں سے زیادہ طاقتور ہے؟
انہوں نے عرب ممالک کو طنزیہ انداز میں مخاطب کرتے ہوئے مزید کہا کہ اگر یمنی عوام کے پاس فلسطین جانے کا کوئی زمینی راستہ ہوتا تو ہم دیکھتے کہ لاکھوں یمنی مجاہد صیہونی دشمن سے براہ راست لڑنے کے لئے حرکت میں آچکے ہوتے۔
غزہ کی حمایت میں عبدالملک الحوثی نے ایک ایسا موقف اختیار کیا جس نے صیہونی حکومت اور اس کے حامیوں بالخصوص امریکہ کو خوفزدہ کر دیا وہ صیہونی حکومت کے جھنڈے والے بحری جہازوں یا مقبوضہ فلسطین جانے والی کشتیوں پر میزائل حملہ تھا۔
اس اقدام کے صیہونیوں کے لئے خوف ناک اقتصادی نتائج نکلے اور غزہ جنگ کے دوران اس حکومت کی معیشت کو تہہ و بالا کر دیا۔
چند روز قبل مصری چینل “القاہرہ الاخباریہ” نے پہلی بار بندرگاہ ایلات کی تصویر شائع کرتے ہوئے بتایا تھا کہ یہ یمنی دھمکیوں کا نتیجہ ہے کہ اس بندرگاہ کو بحری جہازوں سے خالی کر دیا گیا ہے۔
غزہ کے عوام کے دفاع میں یمنیوں کا اقدام اس وقت مزید قابل قدر ہو جاتا ہے جب ہمیں یاد ہے کہ یمن کے خلاف سعودی جنگ ابھی تک سرکاری طور پر ختم نہیں ہوئی ہے اور ابھی چند ماہ قبل تک یمنی عوام سعودی عرب کی طرف سے روزانہ کی بنیاد پر بمباری کا مشاہدہ کر رہے تھے جس میں ایک لاکھ سے زیادہ شہید اور زخمی ہوئے اور 40 لاکھ کے قریب بے گھر ہوئے۔
تاہم غزہ کی حمایت صرف نعروں اور باتوں تک نہیں رہی اور اس نے عملی پہلو اختیار کر لیا تاکہ لبنان کی حزب اللہ کے ساتھ ساتھ یمن کی انصار اللہ بھی صیہونی حکومت کے ساتھ براہ راست جنگ میں داخل ہو سکے۔
سید عبدالمالک الحوثی کی قیادت میں یمنیوں کے بحیرہ احمر میں مقبوضہ فلسطین جانے والے بحری جہازوں پر حملے اور غزہ کی حمایت سے دو باتیں واضح ہوگئیں۔
پہلی یہ کہ عبدالملک الحوثی کی قیادت میں یمنیوں نے جان لیا ہے کہ صیہونی حکومت اور امریکہ کا مقابلہ کرنے کا سب سے اہم اور واحد راستہ مزاحمت اور دشمن سے خوف زدہ نہ ہونا ہے۔
دوسری یہ کہ غزہ کی حمایت میں یمنیوں کا اقدام صرف اور صرف مسئلہ فلسطین اور مزاحمت پر ان کے اسلامی نقطہ نظر کی وجہ سے ہے اور یہ انقلاب اسلامی ایران کے نظریات کا نتیجہ ہے۔
امریکیوں کے خلاف عبدالمالک حوثی کی ایستادگی اور مردانگی دنیا کے حیرانی اور تعجب کا باعث بنی۔
سید نصر اللہ نے انصار اللہ کی فلسطین کی حمایت کے بارے میں کہا کہ اس دوران سخت پابندیوں اور یمن کی ناکہ بندی کے باوجود یمنی مجاہدین کی کارکردگی حیرت انگیز تھی جس نے مزاحمتی محور کے لیے زبردست حمایت پیدا کی ۔
تمام شعبوں میں اس ملک پر مسلط کردہ ناکہ بندی کے باوجود مختلف مواقع پر یمن کا ردعمل غیر معمولی رہا ہے اور اس ملک کا موقف مزاحمتی محور کی طاقت کا باعث بنا ہے۔
سید حسن نصر اللہ نے کہا کہ فلسطین کاز کے لیے یمنی عوام کی حمایت پر آنکھیں اشکبار ہوگئیں جب میں نے انصار اللہ کے سربراہ عبدالملک کو یہ کہتے سنا کہ ہم فلسطینیوں کے ساتھ اپنی روٹی بانٹنے کے لیے تیار ہیں تو میں آنسو نہیں روک پایا؛ ہم ان سے کہتے ہیں کہ آپ خود محاصرے میں ہیں، کیا آپ کے پاس فلسطینیوں کے ساتھ بانٹنے کے لیے کوئی روٹی بھی بچی ہے؟ جب کہ بہت سے عربوں اور مسلمانوں کے پاس اربوں ڈالر کی ذاتی جائیدادیں ہیں جو ان کی ضرورت سے کہیں زیادہ ہیں جن سے وہ تمام بھوکی اقوام کو کھانا کھلا سکتے ہیں۔