[]
یوپی حکومت نے گزشتہ سال 18 نومبر کو حلال سرٹیفائیڈ خوردنی مصنوعات کے پروڈکشن، ذخیرہ اندوزی، تقسیم اور فروخت پر پابندی لگا دی تھی، اس کے خلاف داخل عرضیوں پر آج سپریم کورٹ میں سماعت ہوئی۔
اتر پردیش کی یوگی حکومت نے گزشتہ سال حلال سرٹیفائیڈ مصنوعات کے پروڈکشن اور فروخت پر پابندی لگانے کا حکم جاری کیا تھا۔ اس فیصلے کو چیلنج دینے والی دو الگ الگ عرضیوں پر سپریم کورٹ نے جمعہ کے روز سماعت کی اور ریاستی حکومت کے ساتھ ساتھ اس سے جڑے دیگر افراد سے جواب طلب کیا ہے۔ ایک عرضی حلال انڈیا پرائیویٹ لمیٹڈ کی طرف سے داخل کی گئی ہے، جبکہ دوسری عرضی جمعیۃ علماء مہاراشٹر و دیگر کی طرف سے داخل ہوئی ہے۔ جمعیۃ علماء مہاراشٹر و دیگر کے ذریعہ داخل عرضی میں مرکز کو بھی فریقین میں سے ایک بتایا گیا ہے۔
دراصل یوپی حکومت نے گزشتہ سال 18 نومبر کو حلال سرٹیفکیشن والی خوردنی مصنوعات کے پروڈکشن، ذخیرہ اندوزی، تقسیم و فروخت پر فوری اثر سے پابندی لگا دی تھی۔ وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کے ذریعہ معاملہ پر نوٹس لینے کے بعد پابندی کے بارے میں حکم بھی جاری کر دیا گیا تھا۔ جاری حکم کے مطابق حلال سرٹیفکیشن والی خوردنی مصنوعات کی مینوفیکچرنگ، ذخیرہ، تقسیم و فروخت پر فوری اثر سے پابندی لگائی جاتی ہے۔ اتنا ہی نہیں حلال سرٹیفائیڈ دوا، طریقہ علاج و کاسمیٹکس کی مینوفیکچرنگ، ذخیرہ، تقسیم اور خرید و فروخت یوپی ریاست میں کرتے ہوئے پائے جانے پر متعلقہ شخص/فرم کے خلاف سخت قانونی کارروائی کرنے کی بات بھی جاری حکم میں کہی گئی ہے۔
بہرحال، آج سماعت کے دوران جسٹس بی آر گوئی اور جسٹس سندیپ مہتا کی بنچ نے یوپی حکومت، مرکزی حکومت اور دیگر کو نوٹس جاری کر عرضیوں پر ان کا جواب مانگا ہے۔ حالانکہ شروع میں بنچ نے عرضی دہندگان کی نمائندگی کر رہے وکلا سے سوال کیا کہ عدالت عظمیٰ کو آئین کے شق 32 کے تحت عرضیوں پر غور کیوں کرنا چاہیے، اور انھوں نے پہلے ہائی کورٹ کا رخ کیوں نہیں کیا۔ اس پر ایک وکیل نے کہا کہ اس فیصلے کا پورے ملک پر اثر پڑے گا۔ دراصل حلال سرٹیفائیڈ مصنوعات پر پابندی کا کاروبار اور کامرس پر بھی اثر پڑ رہا ہے۔
بنچ نے وکیل کی اس دلیل کو توجہ میں رکھتے ہوئے اور اس پورے معاملے کی سنجیدگی کو دیکھتے ہوئے کہا کہ ہائی کورٹ کے حکم کا بھی پورے ملک میں اثر ہوگا۔ اگر مان لیجیے کہ ہائی کورٹ کسی خاص شئے پر پابندی لگاتا ہے تو یہ روک پورے ملک میں نافذ ہوگا۔ بین ریاستی کاروبار اور کامرس کے ایشو پر بھی ہائی کورٹ غور کر سکتا ہے۔
اس پر وکیل نے دلیل دی کہ اس ایشو کی عدالت عظمیٰ کے ذریعہ جانچ کیے جانے کی ضرورت ہے اور اس بات پر غور کیا جانا چاہیے کہ کیا اس طرح کا نوٹیفکیشن جاری کیا جا سکتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ کاروبار، کامرس کے ساتھ ساتھ یہ مذہبی جذبات پر اثر کے علاوہ عوامی صحت کا ایشو بھی ہے۔ وکیل نے یہ بات بھی سامنے رکھی کہ گزشتہ سال 17 نومبر کو اتر پردیش میں اداروں کے خلاف ایک ایف آئی آر درج کی گئی تھی جس میں الزام لگایا گیا تھا کہ وہ مالی فائدہ کے لیے فرضی حلال سرٹیفکیٹ جاری کر رہے تھے۔
بہرحال، آج ہوئی سماعت کے بعد سپریم کورٹ بنچ نے اس معاملے کو آئندہ سماعت کے لیے دو ہفتہ بعد فہرست بند کر دیا۔ حالانکہ بنچ نے وکیل کی اس گزارش کو خارج کر دیا کہ عرضی دہندگان کے خلاف سزا سے متعلق کوئی قدم نہیں اٹھایا جائے۔ بنچ نے کہا کہ وہ اس تعلق سے بعد میں غور کرے گی۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
;