دینی وتہذیبی شناخت کی حفاظت

[]

مولانا خالد سیف اللہ رحمانی

(۳)

دوسری طرف مختلف جہتوں سے ہندو مذہبی افکار اور تہواروں کا تقدس سرکاری طور پر ذہن میں بٹھایا جا رہا ہے، اسکولوں میں مشرکانہ ترانہ وندے ماترم پڑھنے پر زور دیا جا رہا ہے، اسکولوں میں گیتا کی تعلیم کو لازم کیا جارہا ہے، اور اس کو نیشنل بک قرار دیا جا رہا ہے، یوگا کے نام پر سوریا نمسکار اور ہندوانہ تہذیب پر مسلمانوں کو مجبور کیا جا رہا ہے، بھارت ماتا کی مورتی بنائی جا رہی ہے، اور اس کی جے کار لگائی جا رہی ہے، نہ صرف گائے کو مقدس جانور کے طور پر پیش کیا جارہا ہے؛ بلکہ اس کے گوبر اور پیشاب کو بھی اشیائے تبرک کا رنگ دیا جا رہا ہے، سرکاری تقریبات میں ہندو علامتی اشیاء کا استعمال ہو رہا ہے، جس کا بھر پور مظاہرہ پارلیمنٹ کے افتتاح کے موقع پر ہوا، عمارتوں کو بھی قدیم ہندو طرز تعمیر پر ڈیزائن کیا جا رہا ہے، ہندو دھرم کی نسبت سے سنسکرت زبان کو مسلط کرنے کی کوشش ہو رہی ہے، اسکولوں میں مسلمان طلبہ وطالبات سے سرسوتی پوجا کرائی جا رہی ہے،

تعلیمی اداروں میں درگا پوجا کا تہوار رکھا جا رہا ہے، آیورویدک دواؤں کو ہندو مذہبی تعلیمات کے طور پر پیش کر کے فروغ دینے کی جان توڑ کوشش ہو رہی ہے، فلموں کے ذریعہ ہندو دیویوں دیوتاؤں کی عظمت ظاہر کی جا رہی ہے، اور بہت افسوس کی بات یہ ہے کہ مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی یہ منظم سازشیں کسی حد تک رنگ بھی لا رہی ہیں، ہندو تہواروں میں مسلمانوں کی شرکت، غیر مسلم لڑکوں کے ساتھ مسلم لڑکیوں کی شادی، مسلمانوں کے زیر انتظام اسکولوں میں ہندو شعائر کی پذیرائی، یہاں تک کہ لباس وپوشاک اور اس سے آگے بڑھ کر مکانات کے کلر میں زعفرانی رنگ کا استعمال، یہ ساری چیزیں وہ ہیں جو مسلمانوں کو اکثریت کی فکر اور تہذیب کی طرف لے جارہی ہیں، اب تو بہت سی جگہ مسلمان ہندو تہواروں میں جلوسوں کا استقبال بھی کر رہے ہیں، مورتیوں اور پجاریوں کو ہار پہنا رہے ہیں، برقعہ پوش خواتین گنیش کے منڈپ میں جا کر بیٹھ رہی ہیں اور مندروں میں جا کر نذرانے پیش کر رہی ہیں،

یہاں تک کہ گزشتہ دنوں برادران وطن کے ایک تہوار میں مولوی صورت اور مولوی لباس نام نہاد مسلمانوں کا ہاتھ باندھ کر مورتی کے سامنے کھڑا ہونا اور مشرکانہ کلمات ادا کرنا سوشل میڈیا کے ذریعہ تمام لوگوں تک پہنچ چکا ہے، جس پر خون کے آنسو رویا جائے تب بھی کم ہے، یہ کچھ معمولی واقعات نہیں ہیں، یہ دو چار مسلمانوں کی شہادت سے کہیں بڑھ کر ہیں، یہ ایک لمحۂ فکریہ ہے، جب کوئی قوم اپنے مذہب اور تہذیب کے بارے میں احساس کمتری میں مبتلا ہو جاتی ہے تو پھر آہستہ آہستہ اس کا اپنی پہچان سے محروم ہو جانا دشوار نہیں ہوتا ، پہلے تہذیبی انضمام کی نوبت آتی ہے، پھر مذہبی ارتداد کا طوفان آتا ہے؛ اس لئے ہمیں اس پہلو پر بہت گہرائی کے ساتھ غور کرنے اور اس فتنہ کا سد باب کرنے کی ضرورت ہے۔

اس سلسلے میں چند باتیں جو بہت اہم نظر آتی ہیں، اور جن کو انجام دینے میں علماء بنیادی رول ادا کر سکتے ہیں، ان کا ذکر کیا جاتا ہے:

۱۔ کوشش ہونی چاہئے کہ کوئی مسلمان لڑکا یا لڑکی بنیادی دینی تعلیم سے محروم نہ رہ جائے، اس کے لئے زیادہ سے زیادہ مکاتب قائم کئے جائیں، چاہے یہ صباحی یا مسائی مکاتب ہوں، یا مغربی ملکوں کی طرح اتوار کو ہفتہ وار مکتب کا نظم ہو، اسی طرح عصری تعلیم کے کسی پُرکشش مضمون، جیسے انگریزی ، حساب یا سائنس کے ساتھ لازمی طور پر بنیادی دینی تعلیم کو شامل کرتے ہوئے کوچنگ سینٹر قائم کئے جائیں، ہمارے یہاں مکتب کے روایتی نظام میں کچھ ماثور اذکار اور چند پاروں کا ناظرہ قرآن پڑھایا جاتا ہے، اس کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا؛ لیکن یہ بھی ضروری ہے کہ اس تعلیم میں ایمانیات کو شامل کیا جائے، خاص کر توحید، شرک والحاد، انسانی زندگی کے لئے نبوت کی ضرورت، ختم نبوت کا عقیدہ اور جزا وسزا کا اسلامی تصور، اور اس کے مقابلہ تناسخ (جو تمام ہندوستانی مذاہب کا تقریباََ مسلمہ عقیدہ ہے ) کا غلط ہونا اور اس کا انسانی زندگی میں صالح انقلاب پیدا کرنے کے لئے ناکافی ہونا واضح ہو جائے۔

۲۔ زیادہ سے زیادہ اسلامی اسکولوں کا قیام، جس میں مسلمان بچوں اور بچیوں کے لئے اسلامیات کی تعلیم لازمی ہو، اُن کے یونیفارم پُر کشش ہوں؛ مگر شریعت کے دائرہ میں ہوں، مڈل کلاس کے بعد لڑکوں اور لڑکیوں کی جداگانہ تعلیم کا نظام ہو، خواہ اسکول ہی الگ ہو جو سب سے بہتر طریقہ ہے، یا کم از کم کلاس روم الگ ہو، اور آخری درجہ یہ ہے کہ کلاس روم میں لڑکوں اور لڑکیوں کی صفوں کے درمیان ایک چھوٹی دیوار ہو اور آمدورفت کے راستے الگ ہوں، اکیڈمی اپنے ۷۲؍ ویں سیمینار منعقدہ ممبئی میں اس سلسلہ میں تفصیلی تجویز منظور کر چکی ہے۔

۳۔ تعلیم اور ملازمت کے لئے جس امتحان اور ٹیسٹ (Test ) کی ضرورت ہو، اس کے لئے کوچنگ کا انتظام کیا جانا چاہئے، اگر دینی مدارس بشرط گنجائش اپنے کیمپس میں نہ نفع نہ نقصان کی اساس پر فیس لے کر ایسے کوچنگ سینٹر قائم کریں گے تو نہ صرف اعلیٰ تعلیم میں مسلمان لڑکے آسکیں گے اور نہ صرف ان کو ملازمت کے بہتر مواقع مل سکیں گے؛ بلکہ ساتھ ہی ساتھ اسلامی ماحول کی وجہ سے ان کے اندر دین کی عظمت اور اپنی شناخت کی حفاظت کا جذبہ بھی پیدا ہوگا، اور سرکاری تعلیمی اداروں میں جن مشرکانہ افکار واعمال پر ان کو مجبور کیا جاتا ہے، یا ان سے مانوس کیا جاتا ہے، وہ اپنے آپ کو اس سے محفوظ رکھ سکیں گے۔

۴۔ موجودہ دور میں اسکل ڈیولپمنٹ (Skill Development ) اور فنی تعلیم کی بہت اہمیت ہے، جس کے ماہرین کی ضرورت ہر جگہ پڑتی ہے، ہندوستان میں ہنر مندوں کی تعداد ضرورت کے اعتبار سے بہت کم ہے، اور بیرون ملک میں اس کی بہت طلب ہے، اس کے ذریعہ صِفر سرمایہ سے انسان اپنے کاروبار کو شروع کر سکتا ہے، اور کم تعلیم یافتہ نوجوان بھی اس سے فائدہ اٹھا سکتا ہے، جو پرائیویٹ ادارے ہیں، وہ اس کام کو کمرشیل بنیاد پر کرتے ہیں اور اس میں دینی تربیت کا کوئی لحاظ نہیں ہوتا، اگر مذہبی تنظیمیں اور مدارس ایسے ادارے اور تربیتی مراکز قائم کریں، جن میں نسبتاً کم اخراجات ہوتے ہیں، تو اس سے مسلمانوں کو روزگار فراہم کرنے میں بڑی مدد ملے گی، اور وہ معاشی اعتبار سے خود مکتفی ہو سکیں گے، اور جب معاشی اعتبار سے خود مکتفی ہوں گے تو ارتداد کی رو میں بہنے سے بچ سکیں گے۔

۵۔ انسان جن باتوں کو بار بار سنتا ہے، وہ اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا، ذرائع ابلاغ اسی اُصول پر کسی نقطۂ نظر کے موافق یا مخالف فضا بناتے ہیں؛ اسی لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے زمانے میں حاصل اور میسر ذرائع ابلاغ کا استعمال فرمایا، آپ کعبۃ اللہ کے صحن سے بھی اہل مکہ کے سامنے توحید کی دعوت پیش کر سکتے تھے؛ لیکن آپ نے صفا کی پہاڑی پر چڑھ کر اپنی دعوت پیش کی؛ کیونکہ اُس وقت تمام اہل مکہ تک اپنی دعوت پہنچانے کا یہی سب سے موثر ذریعہ تھا، پھر آپ نے پورے جزیرۃ العرب تک اسلام کی دعوت پہنچانے کے لئے حج کے مبارک اجتماع اور بعض تجارتی میلوں کا سہارا لیا؛ حالانکہ اس وقت یہ اجتماعات بعض منکرات سے خالی نہیں ہوتے تھے؛ کیونکہ ان ہی اجتماعات کے ذریعہ ایک دوسرے سے پورے جزیرۃ العرب میں بات پہنچ جاتی تھی، پھر جب صلح حدیبیہ ہوگئی، مسلمانوں کو کچھ لمحات سکون کے میسر آئے، نیز اس کے بعد جب مکہ مکرمہ فتح ہوگیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جزیرۃ العرب سے باہر جہاں تک سفارت کاری کے ذریعہ اسلام کی دعوت پہنچائی جا سکتی تھی، اس کی بھر پور کوشش کی، یہاں تک کہ بعض مؤرخین کے بیان کے مطابق چین تک آپ کے نمائندہ پہنچے، اس سے میڈیا کی اہمیت اور اسلام کی نظر میں اس کی وقعت کا اندازہ ہوتا ہے۔

ہمارے ملک میں اور موجودہ حالات میں اسلام اور مسلمانوں کو میڈیا جس درجہ نقصان پہنچا رہا ہے، شاید ہی کوئی اور طاقت اتنا نقصان پہنچا رہی ہو، اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس میدان میں ہم اتنے پیچھے ہو چکے ہیں کہ ہمارے لئے اپنے بدخواہوں کی برابری میں آنا ناممکن سا نظر آتا ہے؛ لیکن بحیثیت مسلمان ہمارا فرض ہے کہ ہم جتنا کر سکتے ہیں، ضرور کریں۔

اس وقت سوشل میڈیا (Social Media )کا ایک ایسا دروازہ کھلا ہے، جو ایک سمندر کی طرح ہے، جس میں گندگیاں بھی ہیں اور صاف وشفاف پانی بھی، اور ہر شخص اس میں اتر کر طبع آزمائی کر سکتا ہے، آج کل سوشل میڈیا کے مختلف وسائل کے ذریعہ مؤثر انداز میں اور زیادہ سے زیادہ لوگوں تک بات پہنچائی جا سکتی ہے، اپنے یوٹیوب چینلس (Channels) قائم کئے جا سکتے ہیں، ٹی وی ڈیبیٹ میں جو زہر پھیلایا جاتا ہے، یو ٹیوب اور ویڈیوز کے ذریعہ اس کا جواب دیا جا سکتا ہے، اس پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے، ادھر ماشاء اللہ نوجوان علماء نے بھی بہت سے یو ٹیوب چینل قائم کئے ہیں؛ لیکن زیادہ تر وہ روایتی پروگرام پیش کرتے ہیں، اور بعض دفعہ تو مسلکی لڑائی کے لئے اس کا استعمال کیا جاتا ہے، ضرورت اس بات کی ہے کہ اسلام مخالف چینلوں کے سوالات سامنے رکھ کر کم از کم یوٹیوب چینلوں کے ذریعہ ان کا جواب دیا جائے، جو لوگ سوشل میڈیا میں سرگرم ہیں، وہ باہمی ارتباط کے ذریعہ ایسے پروگراموں کو زیادہ سے زیادہ پھیلائیں، اور جو مسلمان نوجوان آئی ٹی کی دنیا سے تعلق رکھتے ہوں، ان کی تربیت کی جائے کہ جو پروگرام اسلام کی مخالفت میں آئے، وہ بڑے پیمانے پر اس پر تردیدی کامنٹ (Comment ) دیں، اور جہاں اس سوال کا صحیح جواب مل سکتا ہو، اس کا حوالہ دیں، مقرر کے جھوٹ کو واضح کرتے ہوئے اس سے دلیل طلب کریں، اس طرح ہم مسلما نوں کی نئی نسل کو ارتدادی فکر سے بچا سکتے ہیں، اور بہت سے برادران انسانیت کی غلط فہمیوں کو دور کیا جاسکتا ہے، فی الحال اس طرح ہم ایک حد تک میڈیائی یلغار کا مقابلہ کر سکتے ہیں، اور اگر مسلمان اس میں دلت چینلوں سے رابطہ کر لیں اور ان سے بھی استفادہ کی راہ نکال لیں تو یہ کوشش اور زیادہ مؤثر ہو جائے گی۔

۶۔ مسلمانوں کے اندر فرقہ بندی اور اختلاف کا افسانہ ہمارے دشمن بھی مزے لے لے کر سناتے ہیں، اور ہم بھی نمک مرچ لگا لگا کر اس کو آگے بڑھاتے ہیں؛ بلکہ اپنے اختلافات کو میڈیا میں قوت اور مبالغہ کے ساتھ پیش کرتے ہیں، کم از کم جن ملکوں میں ہم اقلیت میں ہیں، وہاں ہمیں ایسے رویے سے پرہیز کرنا چاہئے، اور اپنے اختلافات کو درسگاہوں تک اور جب عوام سوال کریں تو فتاویٰ تک محدود رکھنا چاہئے، اور اس میں بھی اعتدال کا لحاظ ہونا چاہئے؛ کیونکہ اس وقت فرقہ پرست طاقتیں مسلمانوں کے آپسی اختلاف کو بڑھاوا دینے کی پوری کوشش میں لگی ہوئی ہے، ایسے موقع پر اعراض کا راستہ اختیار کرنا بہتر ہوتا ہے، ہمیں دوسری قوموں سے سبق حاصل کرنا چاہئے، برادران وطن کے فرقوں کی تعداد بے شمار ہے، اور فکر وعمل کے اعتبار سے ان کے درمیان اتنی دوریاں ہیں، جیسے دریا کے دو کنارے؛ لیکن مسلمانوں کی مخالفت کی بنیاد پر اور مسلمانوں کا خوف دلا کر قوم کو متحد کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، عیسائیوں کے عام طور پر تین فرقے مشہور ہیں؛ لیکن شاید آپ کو یہ جان کر حیرت ہو کہ حقیقت میں ان کے تین سو سے زیادہ فرقے ہیں، جن کے درمیان شدید اعتقادی وفکری اختلاف ہے؛ مگر وہ اپنے اختلافات کو عوام میں لانے سے بچتے ہیں۔

حاصل یہ ہے کہ اس وقت بہت چوکسی اور جہد مسلسل کی ضرورت ہے، مسلمانوں کو برادران وطن کی مذہبی تقریبات میں شرکت سے روکنے کی، ایسے تہذیبی تشبہ سے منع کرنے کی جس سے کسی گروہ کی شناخت متعلق ہو، شعائر کفر سے بچانے کی، اسلامی شناخت پر ثابت قدم رکھنے کی، توحید وشرک کی سرحدوں کو اچھی طرح سمجھانے کی، شرک کی مختلف قسموں اور بالخصوص مشرکانہ اعمال کو واضح کرنے اور اپنی پہچان کی حفاظت کرتے ہوئے برادران وطن کے ساتھ تعلقات کو استوار کرنے کی ضرورت ہے، اور اگر ایسا نہیں کیا گیا تو اندیشہ ہے کہ نئی نسل کا ایک بڑا حصہ پہلے تہذیبی ارتداد پھر اسلام کے روایتی اعمال پر قائم رہتے ہوئے فکری ارتداد اور آخر میں خدانخواستہ معلنہ ارتداد تک پہنچ جائے، اللہ تعالیٰ ہم سب کی اس سے حفاظت فرمائے۔
٭٭٭



ہمیں فالو کریں


Google News

[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *