حماس کا اسرائیل کے شرائط ماننے سےانکار، مذاکرات بے نتیجہ

[]

قاہرہ: حماس اور اسرائیل مذاکرات بے نتیجہ ختم ہو گئے، حماس نے اسرائیل کی شرائط ماننے سے انکار کر دیا۔ غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق مصر میں جاری حماس اسرائیل مذاکرات بے نتیجہ ختم ہو گئے، حماس نے مصر اور قطر کی ثالثی میں اسرائیل کی جانب سے رکھی گئی شرائط ماننے سے انکار کر دیا۔

اسرائیل کی پہلی شرط ہے کہ حماس غزہ میں ہتھیار ڈال دے، حماس غزہ کی حکومت سے دست بردار ہو جائے تو اس کے بدلے میں مستقل جنگ بندی کی جا سکتی ہے، جب کہ حماس کا کہنا ہے کہ اسرائیل کی غزہ میں جنگ بندی کے لیے رکھی گئی شرائط کی کوئی منطق نہیں بنتی۔

اے آر وائی نیوز کے مطابق حماس کا کہنا ہے کہ ہمارے لوگوں کے لیے امدادی سامان کی ترسیل جاری رہنی چاہیے اور اس میں اضافہ بھی ہونا چاہیے، جب اسرائیلی جارحیت رُک جائے گی اور امدادی سامان کی ترسیل میں اضافہ ہو جائے گا تو ہم یرغمالیوں کی رہائی پر بات چیت کے لیے تیار ہوں گے۔

الجزیرہ کے مطابق مصر کی جانب سے غزہ میں جنگ ختم کرنے کے لیے جنگ بندی پر مبنی ایک ’پرجوش‘ منصوبہ پیش کیا گیا، یہ تجویز پیر کو اسرائیل، حماس، امریکا اور یورپی حکومتوں کے سامنے پیش کی گئی، جس میں کہا گیا تھا کہ حماس ہتھیار ڈال دے گی، اسرائیل غزہ کی پٹی سے مکمل طور پر انخلا کر جائے گا، حماس کے زیر حراست تمام اسیر بہت سے فلسطینی قیدیوں کی آزادی کے بدلے رہا کیے جائیں گے، اور غزہ میں ایک متحدہ ٹیکنو کریٹک فلسطینی حکومت کا قیام عمل میں لایا جائے گا۔

تل ابیب سے الجزیرہ کے نمائندے کے مطابق یہ تجویز خلیجی ریاست قطر کے ساتھ تیار کی گئی تھی، اس تجویز میں قیدیوں کے تبادلے کے کئی ادوار شامل تھے، پہلے مرحلے میں حماس نے 7 سے 10 دن کی جنگ بندی کے بعد فلسطینی قیدیوں کی رہائی کے بدلے تمام سویلین اسیروں کو رہا کرنا تھا۔ دوسرے مرحلے کے دوران ایک ہفتے کی مزید جنگ میں حماس نے تمام خواتین اسرائیلی فوجیوں کو مزید فلسطینی قیدیوں کے بدلے رہا کرنا تھا۔

آخری مرحلے میں متحارب فریقین نے ایک ماہ تک مذاکرات کرنے تھے، تاکہ حماس کے زیر حراست تمام فوجی اہلکاروں کی رہائی کے بدلے میں مزید فلسطینی قیدیوں کی رہائی عمل لائی جاتی اور اسرائیلی فورسز غزہ کی سرحدوں کی طرف واپس چلی جاتیں۔

 جنگ بندی کے دوران مصر نے فلسطینی دھڑوں حماس اور فلسطینی اتھارٹی کو دوبارہ متحد کرنا تھا، اور مستقبل کے انتخابات سے قبل مغربی کنارے اور غزہ کو چلانے کے لیے مشترکہ طور پر ماہرین کی حکومت کا تقرر کرنا تھا۔

واضح رہے کہ فلسطینیوں کے اعداد و شمار کے مطابق تقریباً 8000 فلسطینیوں کو اسرائیل نے سیکیورٹی سے متعلق الزامات یا سزاؤں کے تحت حراست میں رکھا ہوا ہے۔



[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *