[]
مودی حکومت نے تین متنازعہ فوجداری قوانین کو اپوزیشن کی غیر موجودگی میں منظورکروالیا۔ یہ قوانین ایسے وقت ندائی ووٹ سے منظور کئے گئے جب151 اراکین پارلیمان کو معطل کرکے ایوان سے باہر کردیا گیاتھا۔ پارلیمانی آمریت کی ایسی کوئی مثال نہیں ملتی۔
اُڈولف ہٹلر نے جرمن پارلیمان کو جلادیا تھا لیکن موجودہ حکومت ہٹلر سے بھی دو قدم آگے نکل گئی۔ اس قانون سازی کالازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ گرفتاری کے معاملات میں پولیس کو لامتناہی اختیارات حاصل ہوں گے۔
اس سے بدترین یہ بات ہوگی کہ پولیس ریمانڈ کو90 دن تک بڑھادیا گیا ہے گویا جب تک مکمل تفتیش نہیں ہوتی ملزم پولیس تحویل میں رہے گا البتہ وقتاً فوقتاً عدالت سے ریمانڈ کی مدت بڑھانے کی اجازت طلب کی جاتی رہے گی۔
قوانین میں بہت ہی سخت سزاؤں کی گنجائش ہے۔ 1860ء کے قانون کے تحت غفلت و لاپرواہی سے کسی کی موت واقع ہوجائے تو انتہائی سزا کی مدت دو سال تھی جسے اب بڑھا کر سات سال کردیا گیا ہے اور اگر کوئی شخص کسی کو اپنی کار‘ ٹرک یا موٹر سائیکل سے ٹکر دیکر فرار ہوجائے تو ایسی صورت میں سزا کی مدت دس سال تک ہوگی۔ ایسی صورت میں جبکہ ٹرافک حادثات میں اموات کی شرح ہزاروں بلکہ لاکھوں ہوگئی ہے یہ بدلی ہوئی صورت کتنی خطرناک ہوسکتی ہے اندازہ لگایا جاسکتاہے۔
(RAPE) کے ملزمین کو سخت سزائیں ہوں گی اور اگر کوئی نابالغ لڑکی یعنی بارہ سال سے کم عمر کی لڑکی پر یہ ظلم ڈھایا جائے تو اس جرم کی سزا موت ہوگی جو بالکل واجبی معلوم ہوتی ہے۔ اس گھناؤنے جرم میں بہت ہی سخت سزا ہوگی یعنی عمر قید۔ اگر لڑکی کی عمر(16) سال سے کم ہو۔
اس نئے قانون نے UAPA اور NASA کو بھی پیچھے چھوڑ دیا۔ لیکن اس بات کا ضرور اندیشہ ہے کہ یہ قانون مسلمان‘ دلتوں اور قبائلی افراد کے خلاف استعمال ہوگا اور جرم ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات کے تحت یہ مظلوم طبقات اس قانون کی چکی میں پیس دیئے جائیں گے۔ گویا قوانین کی بدولت ہندوستان ایک پولیس اسٹیٹ بن جائے گا۔
ایک اور تباہ کن ترمیم ہوئی ہے وہ یہ ہے کہ اگر کوئی شخص کسی جرم میں ملوث ہوا اور اسے ضمانت پر رہائی نہیں مل سکی تو جملہ سزا کی مدت کے نصف وقفہ جیل میں گزارنے کے بعد اسے خودبخود ضمانت پر رہا کردیا جائے گا گویا جو مدت اس نے جیل میں کاٹی وہی ضمانت پر رہائی کے لئے کافی ہوگی اس حقیقت کے قطع نظر کہ مقدمہ چلنے کے بعد وہ بے قصور ثابت ہو۔
اس پولیس اسٹیٹ میں انصاف کب ملے گا۔ ہر ملزم پولیس کے رحم و کرم پر ہوگا۔
یہ قانون سازی اس بات کو ثابت کرتی ہے کہ موجودہ زعفرانی حکومت جمہوری لبادہ میں آمریت کے اصولوں پر کاربند ہے۔
ماب لنچنگ میں گو کہ سزائے موت کی سزا مقرر کی گئی ہے لیکن اس جرم کو ثابت کرنا کوئی آسان کام نہیں ۔ آئے دن ایسے واقعات ہوتے رہتے ہیں اور بے گناہ لوگوں کو صرف ان کے کپڑوں اور داڑھی کی وجہ سے بھیڑیوں کا ایک غول گھیرلیتا ہے اور بے گناہ کو موت کے گھاٹ اتار دیاجاتا ہے۔ راجستھان اور ہریانہ کی سرحد پر ایک کار میں بیٹھے ہوئے دو مسلم نوجوانوں کو کس دردناک طریقہ سے شہید کردیا گیا اور قاتلو ںکو حکومت ہریانہ نے تحفظ عطا کیا تھا ۔ ایک مدت کے بعد ملزم مونومانیسر گرفتار ہوا۔
یہ قانون پیشۂ وکالت کیلئے بھی کسی چیالنج سے کم نہیں۔ اس پیشہ پر کتنی کاری ضرب لگے گی ابھی اندازہ نہیں لگایاجاسکتا۔
بنے ہیں اہل ہوس مدعی بھی منصف بھی
کسے وکیل کریں کس سے منصفی چاہیں
فیض احمد فیضؔ
ZERO F.I.R کی سہولت فراہم کی گئی ہے وہ بھی ZERO ہی ہے۔