ملک میں 11 سیاسی جماعتیں، غیرجانبدار

[]

نئی دہلی: 65جماعتیں بی جے پی یا کانگریس زیرقیادت اتحاد میں شامل ہوگئی ہیں لیکن کم ازکم 11جماعتیں جن کے پاس 91 ارکان ِ پارلیمنٹ ہیں‘ ایسی ہیں جنہوں نے نیوٹرل (غیرجانبدار)رہنا چاہا ہے۔

ان میں 3 آندھراپردیش‘ تلنگانہ اور اوڈیشہ جیسی نسبتاً بڑی ریاستوں میں زیراقتدار ہیں جہاں لوک سبھا کی جملہ 63 نشستیں ہیں۔ ان ریاستوں میں کانگریس یا دیگر اپوزیشن جماعتیں درکنار ہیں۔

منگل کے دن کانگریس اور دیگر 25 اپوزیشن جماعتوں نے 39 جماعتوں والے بی جے پی زیرقیادت این ڈی اے کو ٹکر دینے انڈین نیشنل ڈیولپمنٹل انکلوژیو الائنس(انڈیا) قائم کرنے کا اعلان کیا۔

انڈیا یا این ڈی اے میں نہ شامل ہونے والی جماعتوں میں وائی ایس آر کانگریس (وائی ایس آر سی پی)‘ بیجو جنتادل(بی جے ڈی)‘ بھارت راشٹر سمیتی (بی آر ایس)‘ بہوجن سماج پارٹی(بی ایس پی)‘ آل انڈیا مجلس اتحادالمسلمین (اے آئی ایم آئی ایم)‘ تلگودیشم پارٹی (ٹی ڈی پی)‘ شرومنی اکالی دَل (ایس اے ڈی)‘ آل انڈیا یونائٹیڈ ڈیموکرٹک فرنٹ(اے آئی یو ڈی ایف)‘ جنتادل(سیکولر)‘ راشٹریہ لوک تنترک پارٹی(آر ایل پی) اور شرومنی اکالی دَل (مان) شامل ہیں۔

2019 کے الیکشن میں شاندار جیت حاصل کرنے والی وائی ایس آر کانگریس آندھراپردیش میں اور بیجو جنتادل سال 2000 سے اوڈیشہ میں برسراقتدار ہیں۔ پارلیمنٹ میں کئی مرتبہ ان 2 جماعتوں نے حکومت کا ساتھ دیا تھا۔ تلنگانہ میں برسراقتدار بی آر ایس نے جاریہ سال اپوزیشن اتحاد قائم کرنے کا امکان تلاش کیا تھا لیکن وہ اب نئے اتحاد کا حصہ نہیں ہے۔

مایاوتی کی بی ایس پی بھی جس کے 9 ارکان ِ لوک سبھا ہیں‘اپوزیشن اتحاد سے باہر ہے۔ 4 مرتبہ یوپی میں برسراقتدار رہ چکی اِس جماعت نے اعلان کیا ہے کہ وہ آئندہ سال کے لوک سبھا الیکشن کے علاوہ مدھیہ پردیش‘ راجستھان‘ چھتیس گڑھ اور تلنگانہ میں اسمبلی الیکشن تنہا لڑے گی۔

مایاوتی نے ایک بیان میں کہا کہ ہمیں یہ یقینی بنانا ہوگا کہ مرکز میں مجبور حکومت بنے نہ کہ مضبوط حکومت۔مجبور حکومت بننے سے ہی غریبوں‘ دلتوں‘آدی واسیوں‘ دبے کچلے لوگوں اور اقلیتوں کے مفادات کا تحفظ ہوگا۔ اسدالدین اویسی کی مجلس بھی اپوزیشن اتحاد سے باہر رہ گئی ہے۔

اس کا کہنا ہے کہ اس سے سیاسی اچھوت جیسا برتاؤ ہورہا ہے۔ حیدرآباد اور تلنگانہ میں متصل علاقوں میں قابل لحاظ اثرو رسوخ رکھنے والی مجلس مہاراشٹرا‘ اترپردیش‘ بہار اور کرناٹک جیسی ریاستوں میں اپنی توسیع چاہتی ہے۔

مجلس کے ترجمان وارث پٹھان نے اپوزیشن اتحاد پر طنز کرتے ہوئے کہا کہ سابق میں بی جے پی سے ہاتھ ملانے والے نتیش کمار‘ اُدھو ٹھاکرے اور محبوبہ مفتی جیسے قائدین بنگلورو میٹنگ کا حصہ تھے لیکن بی جے پی کو ہرانے کے لئے کام کرنے والی مجلس کو نظرانداز کردیا گیا۔



[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *