[]
ممبئی: مہاراشٹر حکومت نے مشہور گلوکار پدم شری محمد رفیع مرحوم کی صد سالہ تقاریب منانے کا فیصلہ کیا ہے۔ ریاست کے نائب وزیر اعلیٰ دیویندر فڑنویس نے خود اس بات کا اعلان مہاراشٹرا اسمبلی میں کیا۔ ان تقاریب کا جشن 24 دسمبر سے شروع ہوگا۔
ریاستی حکومت نے ان کے صد سالہ یوم پیدائش کو مناسب طریقے سے منانے اور اس عظیم گلوکار کو اعزاز دینے کا فیصلہ کیا ہے۔
نائب وزیراعلی دیویندر فڑنویس نے مزید کہا کہ محمد رفیع کا تعلق اگرچہ ریاست پنجاب سے تھا لیکن ممبئی اور مہاراشٹرا ان کی کرم بھومی کہی جاسکتی ہے۔ انہوں نے تقریباً 60 ہزار نغمے گائے اور مہاراشٹرا سمیت ملک بھر میں ان کے کروڑوں چاہنے والے ہیں۔
امسال سے ان کا صد سالہ یوم پیدائش منانے کا مطالبہ کیا جارہا ہے اور ان کی حکومت نے محکمہ ثقافت کو ہدایت دی ہے کہ محمد رفیع کا 100 واں یوم پیدائش، جشن کا طرح منایا جائے ،اس کی منصوبہ بندی کی جائے۔
واضح رہے کہ محمد رفیع 24 دسمبر 1924 کو امرتسر کے ایک گاؤں کوٹلہ سلطان سنگھ میں پیدا ہوئے۔ بتایا جاتا ہے کہ ان کے بچپن کے دنوں میں ایک فقیر ان کی گلی میں آتا تھا، جو بلند آواز میں گیت گاتا تھا۔
رفیع کو اسے گنگناتا دیکھ کر ان کے بڑے بھائی نے استاد وحید خان کی سرپرستی میں انہیں موسیقی کی تعلیم دلوائی۔ رفیع نے لاہور ریڈیو پر پنجابی نغموں سے اپنے سفر کی ابتدا کی۔ پہلی پنجابی فلم ’گل بلوچ‘ میں انہوں نے اپنا گیت زینت بیگم کے ساتھ ریکارڈ کیا۔
ایک روز کندن لال سہگل کا پروگرام تھا۔ وہ اپنے وقت کے مشہور گلوکار تھے اور انہیں سننے کے لئے سینکڑوں کا مجمع تھا، مگر بجلی فیل ہونے کی وجہ سے سہگل نے گانے سے انکار کر دیا۔ اسی وقت رفیع کے بھائی نے پروگرام کے منتظمین سے کہا کہ ان کا بھائی بھی ایک گلوکار ہے اور اسے موقع دیا جائے۔
مجمع کی ناراضگی کو دیکھتے ہوئے منتظمین نے رفیع کو گانے کا موقع دیا۔ 13 سال کی عمر میں انہوں نے اِسٹیج پر گیت گایا۔ اسی پروگرام میں موسیقار شیام سندر بھی موجود تھے۔ انہوں نے ایک جوہری کی طرح رفیع کو پرکھ لیا اور انہیں بمبئی آنے کی دعوت دی۔
بس یہیں سے رفیع کا گلوکاری کا یادگار سفر شروع ہوا۔ تقسیم ہند سے قبل انہوں نے کئی فلموں میں نغمے گائے۔ فلم جگنو میں ملکہ ترنم نورجہاں کے ساتھ ان کا گایا گیت ’’یہاں بدلہ وفا کا بے وفائی کے سوا کیا ہے‘‘ ان کے ہزا رہا یاد گار نغموں میں سے ایک ہے۔ نوشاد کے ساتھ رفیع کی جوڑی بہت کامیاب رہی۔ بیجو باؤرا کے سارے نغمے ہٹ ہوئے۔
من تڑپت ہری درشن کو آج جیسا کلاسیکی گیت ہو یا چاہے مجھے کوئی جنگلی کہے کا چنچل نغمہ، رفیع کو ہر طرح کے گیت گانے میں مہارت حاصل تھی۔ انہوں نے وہ نغمے بھی گائے جسے اس وقت کے دوسرے گلوکاروں نے گانے سے انکار کر دیا تھا۔
کشور کمار نے ’ہاتھی میرے ساتھی کا گیت نفرت کی دنیا کو چھوڑ کر‘ گانے سے انکار کر دیا تھا کیونکہ اس میں آواز کی لے کافی اونچی تھی لیکن رفیع نے یہ گیت گایا اور بہت مقبول ہوا۔
رفیع بہت سیدھے اور صاف دل انسان تھے۔ کئی مرتبہ انہوں نے بغیر ایک پیسہ لئے گیت گایا۔ ایک بڑے موسیقار نے رفیع کی موت کے بعد اعتراف کیا کہ ان کے پاس رفیع کو دینے کے لئے پیسے نہیں تھے۔ گیت ختم ہونے کے بعد انہوں نے رفیع صاحب سے نظریں نہیں ملائیں اور دنیا کو دکھانے کے لئے ایک خالی لفافہ پکڑا دیا۔ رفیع نے اسے لے لیا لیکن بعد میں ملاقات کے بعد کبھی اس کا تذکرہ بھی نہیں کیا، جب بھی ملے مسکرا کر ملے۔ انہیں فلم فیئر کے چھ ایوارڈ حاصل ہوئے۔
محمد رفیع کا انتقال 31 جولائی 1980 کو بمبئی میں ہوا اور ان کے جلوس جنازہ میں لاکھوں لوگوں نے شرکت کی تھی۔