طُرّے باز خان جو طرم خان ہوگئے

[]

سیّد مقصود
صدر راشٹریہ مسلم مورچہ نئی دہلی

17 ایک جولائی 1857 کی بات ہے جمعہ کا دن قطب شاہیوں کی بنائی ہوئی مکہّ مسجد میں اورنگ آ باد سے نوکری چھوڑکر فرار ہوا جتھا ‘چیتا خان اور اُن کے ساتھیوں کی آمد ہوئی ۔ شہر کے معززین علماء اور کچھ جاگیردار عوام کی کثیر تعداد جمع تھی۔ حالات بڑے دھماکو تھے اُن باغی فوجیوں پر 3000 ہزار روپئے کا اانعام رکھا گیا تھا۔ سالار جنگ نے ان سب کو گرفتا ر کرکے ریذیڈنسی کو اطلاع کردی۔سب نے طئے کیا اُس وقت کے نظام سے ملیں اور ان سے گذارش کریں کہ فوجیوں اور انکے سردار چیتا خان کو آزاد کردیا جائے ‘ اگر حکومت کی وقت کی طرف سے انکار کیا جاتا ہے تو اس صورت میں ریذیڈنسی پر حملہ کیا جائےگا۔
نماز مغرب کے بعد 500 مجاہدین کا ایک جتھا مولوی علاؤالدین کی قیادت میں کوٹھی جو رزیڈنسی تھی آج کل وہاں وومنس کالج ہے۔اُس پر حملہ کی نیت سے نکل کھڑے ہوئے کچھ دور چلنے کے بعد چارمینار کے قریب ابراہیم خان اپنے ساتھیوں کے ساتھ اس جلوس میں شامل ہوگئے۔جلوس جب بیگم بازار پہنچا تو روہیلوں کے لیڈر طُرّے باز خان اور انکے ساتھی بھی شامل ہوگئے۔رزیڈنسی کے قریب پہنچتے پہنچتے یہ جلوس انسانی سروں کے سمندر میں تبدیل ہوگیا جو جوش و خروش غصّہ و غضب کے جذبات سے بھر اہوا تھا۔ مولوی علاؤالدین اور طُرّے باز خان نے رزیڈنسی کے سامنے 2 مکانوں پر اپنے اپنے مورچے قائم کرلئے ایک نواب فیاض یار جنگ ابن صاحب کا مکان اور دوسرا گوپال داس کا باغ، وہاں سے رزیڈنسی پر آسانی سے توپیں داغی جاسکتی تھیں۔ادھر رزیڈنسی کے دروازے بند کردئے گئے جہاں سے حملے کی گنجائش تھی وہاں پر سنگینیں لگادی گئیں، شام 6،7 بجے سے صبح 4 بجے تک گولا باری کا تبادلہ ہوتا رہا۔آخر کار وہی ہوا ایک منظم فوج اور غیر تربیت یافتہ جوش و جذبہ سے بھرے ہوئے عام عوام اور پرانے ہتھیاروںسے لڑی جانے والی جنگ میں ہوتا ہے مجاہدین کا جوش و جذبہ نتیجہ کی پرواہ کئے بغیر لڑتے رہے ایک وقت ایسا بھی آیا رزیڈنسی کی گیٹ جو پُتلی باؤلی کے طرف تھی اس کے دروازوں کو توڑنے میں کامیاب ہوگئے، مجاہدین کی طرف سے کوئی 30 تا 40 کو جام شہادت نصیب ہوا انگریزوں کا کتنا نقصان ہوا پتہ نہ چل سکا۔
18جولائی 1857 ء کی صبح تک لڑائی ختم ہوچکی تھی طُرّے باز خان اور انکے ساتھی وہاں سے فرار ہوگئے، مگر شہر سے صرف 12میل پر انگریز فوجی دستے نے انکو گھیر لیا، طُرّے باز خان کی ران پر گولی لگی اُسکے باؤجود گھوڑے پر سوار ہوکر فرار ہونے کی کوشش کی فوجی دستے نے گھوڑے کو زخمی کردیا جسکی وجہ سے طرّے باز خان گرفتار کرلئے گئے۔ یہ انکی پہلی گرفتاری تھی رزیڈنسی کے دواخانہ میں علاج کے لئے شریک کردئے گئے جب وہ صحت یاب ہوئے ان پر مقدمہ چلایا گیا اور حبس دوام کی سزا سنائی گئی۔ انہیں انڈومان لے جانے کی تیاری ہورہی تھی‘لیکن وہ 18 جنوری 1859 ء کو جیل سے فرار ہوگئے ۔ایک ہفتہ کے اندر ہی ان کو جائے پناہ دریافت کرلی گئی۔توپران کے تعلقدار قربان علی نے انہیں گرفتا ر کرنا چاہا تو طُرّے باز خان اور انکے ساتھیوں نے تلواروں سے پولیس پر حملہ کردیا جس سے طُرّے باز خان اور انکے ساتھی کو گولی لگی انکی لاش حیدرآباد لائی گئی۔بے گور و کفن ایک شاہراہ پر لٹکائی گئی، شائد انگریزوں کو معلوم ہوگیا تھا شہداء کی لاش کو غسل نہیں  دیا جاتا اسطرح یہ عظیم بہادر مجاہد آزادی نے آخری دم تک لڑتے ہوئے جام شہادت نوش کیا انکی اس بہادری کی وجہ سے دکن میں ایک محاورہ بن گیا ’’اپنے آپ طرم خان سمجھتے ہو‘‘ ’’بڑے طرم خان بننے جارہے ہو‘‘ جب کوئی اپنی طاقت اور حیثیت سے بڑھ کر کارنامہ بہادری انجام دیتا ہے طُرّے باز خان بگڑ کر طرم خان ہوگیا۔
ان کے ساتھ مولوی علاؤالدین جن کی قیادت میں رزیڈنسی پر حملہ کیا گیا تھا، تاریخی مکّہ مسجد کے امام تھے صرف امام ہی نہیں میدان جنگ کے مجاہد بھی تھے، رزیڈنسی پر حملہ کی ناکامی کے بعد 15،16 مہینے مختلف مقامات پر روپوش رہے،آخر کار 28جون 1859ء کو گرفتار ہوئے مقدمہ چلا اور انڈومان بھیج دئے گئے،وہاں پر وہ 1884ء میں انتقال کرگئے۔
انکے ساتھ کئی لوگوں کو بھی سخت سزائیں دی گئیں انکی جاگیریں ضبط کی گئی قید وبند کیا گیا۔ ان میں بہت سارے اہم نام (ریاست حیدرآباد میں جدوجہد آزادی جوّاد رضوی کی کتاب میں ان کے نام ان کے مختصر حالات زندگی ملتے ہیں) جیسے پیر محمد، عظمت جنگ، قطب خان، مولوی سیّد احمد وغیرہ۔
کومرم بھیم کے مقابلے میں مولوی علاؤالدین، طُرّے بازخان 500 اہم ساتھیوں کی قربانیاں بہت بڑی ہیں، 1947ء میں  ملک آزاد ہوا مگر یہ لوگ 1857 ء یعنی تقریباً 100 سال پہلے ہی دکن سے انگریزوں کا صفایہ کرنے کی کوشش میں لگے ہوئے تھے۔ کوٹھی بس اسٹانڈ سرکل کے پاس ایک یادگار مینار 2007ء میں وائی ایس راج شیکھر ریڈی کے دو ر میں بنایا گیا اور ہم سب ان عظیم مجاہدین قربانیوں کو بھول گئے۔ فطرت کا قانون ہے جو قوم اپنے محسنین کی قدر نہیں کرتی اس قوم میں محسنین پیدا ہونا بند ہوجاتے ہیں ۔محسنین کسی قوم کے لئے قدرت کی جانب سے عطیہ ہوتے ہیں۔فطرت کو اپنے عطیہ کی بے قدری پسند نہیں ہوتی۔
17جولائی آزادی کی اس تاریخی جدوجہد کو یاد رکھنے کوٹھی بس اسٹانڈ سرکل پر پہنچ کر انکو خراج عقیدت پیش کریں۔



[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *