[]
حیدرآباد: عثمانیہ یونیورسٹی سے ایم ایس سی جنیٹکس کی ٹاپر طالبہ نے کہا کہ یونیورسٹی نے انہیں اس بنیاد پر گولڈ میڈل دینے سے انکا ر کردیا کیونکہ شعبہ جنیٹکس کو کوئی اسپانسر نہیں ملا۔
وشنو وچانا مراپکا نام کی طالبہ نے اس سلسلہ میں ریاستی گورنر ڈاکٹر تمیلی سائی سوندرا راجن کو ایک مکتوب روانہ کرتے ہوئے ان سے مداخلت کی درخواست کی ہے کیونکہ ریاستی گورنر، یونیورسٹی کی چانسلر بھی ہیں۔
اپنے مکتوب میں وشنو وچانا نے کہا کہ مایوس کن بات یہ ہے کہ مجھے مومنٹو یا دیگر قسم کا کوئی ایوارڈ بھی نہیں دیا جارہا ہے۔طالبہ کے والد ایم ایس آر وینکٹ رمنا نے کہا کہ یونیورسٹی حکام نے میری بیٹی کو مطلع کیا کہ وہ (وشنو وچانا) 31 / اکتوبر کو منعقد شدنی یونیورسٹی کے کانو کیشن میں بھی شرکت نہیں کرسکتی کیونکہ اس کانوکیشن میں صرف پی ایچ ڈیز اور گولڈمیڈلسٹ ہی شرکت کریں گے۔
حیدرآباد میں رہنے والی وشنو وچانا نے سال 2022 میں عثمانیہ یونیورسٹی کے شعبہ جنیٹکس اینڈ بائیو ٹکنالوجی سے ماسٹر (ایم ایس سی) کا کورس مکمل کیا۔ وہ، فی الوقت سی ایس آئی آر۔ سی سی ایم بی (سنٹر فار سیلولر اینڈ مالیکو لاربائیولوجی) میں پی ایچ ڈی کررہی ہیں۔ طالبہ نے کہا کہ وہ بچپن سے ہی سائنسداں بننے کا خواب دیکھ رہی تھیں تاکہ وہ ملک و قوم کا نام روشن کرسکوں۔
لائف سائنسس بالخصوص جنیٹکس (جنییات) مضمون سے مجھے حد سے زیادہ لگاؤ ہے اور یہ ملک میں ابھرتا مضمون بھی ہے۔ اس لئے وہ چاہتی ہیں وہ ایک ماہر جنییات بنوں اور ملک میں جنییات کے شعبہ کو فروغ دے سکوں۔ گورنر کو تحریر کردہ مکتوب میں انہوں نے یہ بات کہی۔ کوٹھی ویمنس کالج (تلنگانہ مہیلا وشوا ودیا لائم) سے جنیٹکس اینڈ بائیو ٹکنالوجی سے بیچلر کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد وہ کئی مسابقتی امتحانات میں شرکت کرچکی ہیں۔
جس کے سبب انہیں ممتاز جامعات جیسے بنارس ہندو یونیورسٹی، سنٹرل یونیورسٹی آف پنجاب، سنٹرل یونیورسٹی کیرالا میں انہیں پی جی میں داخلہ لینے کے مواقع ملے مگر چونکہ وہ تلنگانہ میں رہتی ہیں، اس لئے انہوں نے ایم ایس سی جنیٹکس کیلئے عثمانیہ یونیورسٹی کا انتخاب کیا۔
انہوں نے سال 2020-22 بیاچ میں ایم ایس سی جنیٹکس میں ٹاپ کیا اور 10کے منجملہ 8.75 جی پی اے حاصل کرتے ہوئے فرسٹ ڈیویژن میں کامیابی حاصل کی تاہم انہیں یہ جان کر بہت صدمہ ہوا کہ شعبہ جنیٹکس اینڈ بائیو ٹکنالوجی کے ٹاپر کو یونیورسٹی گولڈ میڈل دینے سے قاصر ہے۔ جبکہ دیگر تمام شعبہ جات کے ٹاپرس کو گولڈ میلال دئیے جاتے ہیں۔
انہوں نے تحریر کیا کہ افسوسناک بات یہ ہے کہ مجھے، گولڈ میڈل کے بجائے ستائشی مکتوب، مومنٹو یا کسی نوعیت کا ایوارڈ بھی نہیں دیا جارہا ہے جو میری پڑھائی اور محنت کو تسلیم کرسکے۔
میں نے اس بارے میں وائس چانسلر پروفیسر رویندر اور رجسٹرار پروفیسر پی لکشمی نارائنہ کی توجہ بھی اس جانب مبذول کرائی تھی جس پر وائس چانسلر اور رجسٹرار نے کہا کہ چند افراد گولڈ میڈل کیلئے رقم فراہم کرتے ہیں مگر شعبہ جنیٹکس کو کسی نے بھی گولڈ میڈل کیلئے رقم اسپانسر نہیں کی ہے۔
وشنو وچانا نے گورنر کے نام تحریر کردہ مکتوب میں کہا کہ جنیٹکس کی تعلیم حاصل کرنا کیا میری غلطی تھی؟ جس کو گولڈ میڈل کیلئے کوئی اسپانسر نہیں ملا۔ ہر سمیسٹر اور یونیورسٹی ٹاپ کرنے کیلئے دن رات سخت محنت کی مگر میری اس محنت نے مجھے کوئی شناخت نہیں دی ہے۔