[]
مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، آیت اللہ سید ابراہیم رئیسی نے آج اتوار کی سہ پہر فرانس کے صدر ایمانوئل میکرون سے ٹیلی فونک ملاقات میں صیہونی حکومت کے مجرمانہ حملوں کی شدید مذمت کرتے ہوئے غزہ کے عوام کی حالت زار پر تشویش کا اظہار کیا۔
انہوں نے صیہونیوں کے ہاتھوں مظلوم فلسطینی قوم کی 70 سالوں سے ظلم و جبر، نا انصافی، نسل پرستی، وحشیانہ قتل و غارت، امتیازی سلوک اور غاصبانہ قبضے کو یاد دلاتے ہوئے کہا: فلسطینی مزاحمتی گروہوں نے جو کچھ کیا وہ در اصل فلسطینی عوام کے ساتھ پچھلی سات دہائیوں سے جاری قتل و غارت اور نسل پرستانہ جرائم کا ردعمل تھا۔
رئیسی نے فلسطینیوں کے خلاف صیہونی حکومت کی بین الاقوامی قوانین اور نام نہاد امن معاہدوں کی بار بار خلاف ورزیوں کا ذکر کرتے ہوئے واضح کیا: اس رجیم نے تمام بین الاقوامی قوانین و ضوابط کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پانی، بجلی، ایندھن اور خوراک جیسی بنیادی انسانی ضروریات تک بند کر رکھی ہے اور اس اپارتھائیڈ رجیم نے غزہ کے لوگوں کے خلاف جنگی جرائم کے ساتھ ساتھ شہری اہداف پر بڑے پیمانے پر اور اندھا دھند بمباری یہاں تک کہ فاسفورس بموں کے استعمال کا ارتکاب کیا ہے۔
صدر رئیسی نے یہ بیان کرتے ہوئے کہ صیہونی حکومت کے اقدامات نازیوں کے طرز عمل کی یاد دلا رہے ہیں، کہا: اگر صیہونی حکومت ان جرائم کو جاری رکھ کر اپنی ناکامی کی تلافی کرنے کی کوشش کرتی ہے تو مزاحمت کے طریقوں میں وسعت آئے گی۔
ابراہیم رئیسی نے صیہونی حکومت کے جرائم کی وضاحت کرتے ہوئے مزید کہا: صیہونی حملوں میں غزہ کے شہداء میں سے تقریباً دو تہائی خواتین اور بچے ہیں، حالیہ دنوں میں نصف ملین لوگ بے گھر ہوئے ہیں اور بنیادی اشیاء کی قلت نے غزہ کے شہریوں کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔
انہوں نے غزہ کے رہائشی علاقوں پر بمباری کو فوری طور پر بند کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا: غزہ کے باشندوں کو ان کے آبائی علاقوں سے جبری بے گھر کرنا نہ تو عملی طور پر ممکن ہے اور نہ ہی بین الاقوامی اصولوں اور قوانین سے مطابقت رکھتا ہے اور فلسطینی مزاحمتی گروہ اور تمام آزاد اقوام ان جرائم کے خلاف کھڑی ہو ں گی۔
ڈاکٹر رئیسی نے غزہ کے مظلوم اور نہتے عوام کے خلاف جاری وحشیانہ جرائم کے بارے میں مغربی ذرائع ابلاغ کے جانبدارنہ بیانیے پر تنقید کرتے ہوئے واضح کیا: ظالم اور مظلوموں کو تبدیل نہیں کیا جانا چاہیے اور مظلوموں پر الزام تراشی کر کے وہ ظالموں اور مجرموں کو چھوٹ دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔
کسی بھی جانبدارانہ اقدام سے پہلے صیہونی رجیم پر غزہ کے شہریوں کے خلاف جرائم روکنے اور غزہ کا محاصرہ ختم کرنے دباؤ بڑھانے زور دینا چاہئے۔
انہوں نے مغربی ممالک اور بین الاقوامی اداروں پر زور دیا کہ اپنی ذمہ داری پر عمل کرتے ہوئے صیہونی رجیم پر غزہ کے رہائشی علاقوں پر بمباری کو فوری بند کرنے، محاصرہ ختم کرنے اور وہاں پانی، بجلی، ایندھن اور بنیادی اشیاء کی فراہمی یقینی بنانے کے لئے دباو بڑھائیں۔
صدر رئیسی نے صیہونی حکومت کے جرائم کو روکنے اور اس بحران کو خطے کے دوسرے حصوں تک پھیلنے سے روکنے کو ناگزیر قرار دیتے ہوئے کہا: مغربی ممالک اور بین الاقوامی تنظیموں کو اس میدان میں فوری طور پر اپنی ذمہ داریوں پر عمل کرنا چاہیے۔
انہوں نے مغربی ممالک اور صیہونی حکومت کے حامیوں پر یہ سوال اٹھایا کہ کیا اس رجیم کے ہاتھوں غزہ میں 700 مظلوم اور معصوم بچوں کے قتل کو جائز قرار دیا جا سکتا ہے؟
انہوں نے مغربی ممالک اور ذرائع ابلاغ سے خطاب کرتے ہوئے مزید کہا: اگر تم خدا پر ایمان رکھتے ہو تو اس کا کیا جواب دیتے ہو؟
اور اگر خدا کو نہیں مانتے تو انسانی ضمیر یا تاریخ کو کیا جواب دو گے؟ آپ دنیا کی نظروں کے سامنے اس مجرمانہ حکومت کے ہاتھوں بچوں کے قتل عام کا جوابدہ کیسے ہو سکتے ہو؟
صدر رئیسی نے فلسطینی عوام کے حامیوں کے احتجاجی مظاہرے کو روکنے پر فرانسیسی حکومت کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا اور مسٹر میکرون سے کہا: “اس بات کی اجازت نہ دیں کہ تاریخ میں فرانس کا نام ایک ایسے ملک کے طور پر لیا جائے جو بچوں کو قتل کرنے والی صیہونی رجیم کی حمایت کرتا ہے اور ایک مظلوم اور ستم دیدہ قوم کے خلاف صیہونی رجیم کی جارحیت کا حصہ بن جائے۔
ڈاکٹر رئیسی نے فلسطینی عوام کو اپنی تقدیر خود طے کرنے کے لئے حمایت کو اسلامی جمہوریہ ایران کی بنیادی پالیسی قرار دیتے ہوئے مزید کہا: ہم سمجھتے ہیں کہ فلسطینی مزاحمتی کا دفاع ایک مظلوم اور ستم دیدہ قوم کا دفاع ہے۔
اس ٹیلی فونک گفتگو میں فرانس کے صدر ایمانوئل میکرون نے غزہ کی پٹی میں بحران کی شدت پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے خطے میں اسلامی جمہوریہ ایران کو موئثر اور فیصلہ کن کردار ادا کرنے کا مطالبہ کیا تاکہ حالات پر قابو پایا جا سکے۔ تاہم جواب میں کہا گیا کہ مزاحمتی تحریکوں کو ہی اس معاملے میں فیصلے کا اختیار ہے۔