[]
مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ایرانی صحافی نے سوشل میڈیا پر لکھا کہ روزانہ ایک تصویر انتخاب کرکے چیف ایڈیٹر کو تاکید کرتا ہوں کہ یہ اخبار کے صفحہ اول کی سٹوری پکچر کے لئے استعمال کریں۔
چند لمحے بعد اخبار کے فن تزیین کاری کے سربراہ کی آواز آتی ہے۔
صفحے کے بالائی حصے پر نگاہ کرتا ہوں تو مانیٹر پر ایک تصویر رکھی ہوئی ہے جس سے نظریں چرارہا ہے۔۔۔ کہتا ہے کہ اس تصویر کو میں نہیں لگا سکتا۔۔۔ یہ بچی میری بیٹی کی ہم شکل ہے۔۔۔ آواز سینے میں رک جاتی ہے۔۔۔
کچھ احباب صفحے کے بالائی حصے کو دیکھنے کے بعد کہتے ہیں: کتنا دردناک منظر ہے!!!
کوئی غصے سے کہتا ہے: تیرے بچے نہیں ہیں؟ تجھے احساس نہیں ہے؟ ایسی تصویر دیکھ کر انسان کا جگر پارہ ہوجاتا ہے۔
کہتا ہوں تیری بات اور نگاہوں کو خوب سمجھ سکتا ہوں لیکن یہ ایسی تصویر ہے جو سینکڑوں آرٹیکلز، ویڈیوز، خبروں اور تجزیوں کو اپنے اندر سمیٹ لیتی ہے۔ ہزاروں سال بعد بھی کوئی اس تصویر کو دیکھے تو نتن یاہو، گیلانت، بینٹ اور ان کے ساتھیوں کی وحشی گری کے بارے میں کچھ بتانے کی ضرورت نہیں ہوگی۔
یہ تصویر اپنی ذات میں فریاد کررہی ہے۔ چیخ رہی ہے بلکہ فلسطینیوں کی مظلومیت جھلک رہی ہے۔ اس بچے کی دردناک کہانی ہے جس کو ایک دن بھی آزاد زندگی نصیب نہیں ہوئی۔ ان لوگوں کی داستان ہے جن کے گھر جل گئے، عزیزوں کو کھودیا اور سب سے زیادہ دردناک اور تکلیف دہ بات یہ کہ ان کی فریاد بھی کوئی سننے والا نہیں ہے۔۔۔