[]
ڈاکٹر سید اسلام الدین مجاہد
فلسطینی عوام کے خلاف اسرائیل کی کئی دہوں سے جاری دہشت گردانہ کارستانیوں کے خلاف فلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس کی جانب سے گزشتہ ہفتہ کی صبح ( 7 اکتوبر 2023) اسرائیل پر راکٹوں کے ذریعہ تابڑ توڑ حملوں کے نتیجہ میں اسرائیل کے ہوش اُڑ گئے اور ساری دنیا بھی حیران و ششدر ہے کہ حماس نے کس خاص منصوبہ بندی کے ساتھ اس آپریشن کو روبہ عمل لایا۔ حماس کی اس پیش قدمی کو اسرائیلی جارحیت کے خلاف کی جانے والی سب سے بڑی اور نتیجہ خیز کارروائی قرار دیا جا رہا ہے۔ گز شتہ پچھتر سال سے اسرائیل جس سفاکیت اور بربریت کا بدترین مظاہرہ کر رہا ہے، اسے ساری دنیا اپنے سَر کی آنکھوں سے دیکھ رہی ہے۔ انصاف پسند اور مظلوم طبقے حماس کے اس دلیرانہ اقدام کو دادِ تحسین پیش کر رہے ہیں۔ صہیونی قوتوں کو معلوم ہو گیا کہ فلسطینیوں کو اب دبائے رکھنا ،ان کے لیے ممکن نہ رہا۔ دنیا کی طاقتور ترین فوج رکھنے والے ملک پر ایک کمزور قوم کی یلغار اس بات کا ثبوت ہے کہ فلسطینیوں کے عقیدہِ توحید نے ان میں اتنی طاقت اور جرا¾ت بخشی کہ وہ اسرائیل کو للکار سکیں۔ اسرائیل کی پشت پر دنیا کی بڑی طاقتیں سوار ہیں، لیکن حماس کی اس اچانک کارروائی کے بعد وہ بھی سہم گئے ہیں کہ کہیں حماس کے غیظ و غضب کا وہ بھی شکار نہ ہوجائیں۔اس لیے اب جنگ بندی کا مطالبہ ان ممالک کی جانب سے ہورہا ہے جو اسرائیل کو اب تک فلسطینیوں پر مظالم ڈھانے پر اس کو شاباشی دے رہے تھے۔ فلسطینی عوام گز شتہ کم و بیش ایک صدی سے صہیونی طاقتوں کے ظلم و ستم کو سہہ رہے ہیں لیکن انسانی حقوق کا تحفظ کرنے والی طاقتیں بھی خاموش تماشائی بن کر اسرائیل کی ہمت بندھارہی ہیں۔ نام نہاد امن کے علمبرداروں کا بھی ضمیر مر چکا ہے کہ وہ دنیا کی سب سے ظالم قوم کو من مانی کرنے کی کھلی آزادی دے رکھے ہیں۔ موجودہ صورت حال کے لیے اسرائیل اس لیے ذمہ دار ہے کہ اس نے اپنی خونریزی اور درندگی کی بہیمانہ کارروائیوں کے ذریعہ فلسطینی عوام کی زندگی تنگ کر کے رکھ دی ہے۔ حماس کی اس کارروائی کے بعد اسرائیل اپنے آپ کو مظلوم ثابت کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ فلسطین پر اسرائیل کا قبضہ ناجائز ہے۔ وہ ایک غاصب اور ظالم حکومت ہے جو فلسطین کے حقیقی شہریوں کو ان کے وطن سے نکالنا چاہتی ہے۔ مغربی طاقتوں کی مجرمانہ سازشوں کے نتیجہ میں اسرائیلی مملکت کا قیام عمل میں آیا۔ خلافت عثمانیہ کے سقوط کے بعد ان طاقتوں نے عربوں کے قلب میں اسرائیل کی شکل میں خنجر گھونپا۔ آج اسرائیل صرف قبضہ ہوئے علاقہ پر قابض نہیں ہے بلکہ وہ عظیم تر اسرائیل کا خواب لیے ہوئے سارے عرب علاقہ کو اپنے زیر نگین کرنے کی پالیسی پر گامزن ہے۔ اسی لیے وہ فلسطینیوں کو ان کے علاقوں سے نکالنے کے لیے جارحانہ حملے کرتا رہا۔ 1967 کی عرب۔ اسرائیل جنگ کے بعد اس نے بزور طاقت فلسطین کے بڑے علاقہ پر قبضہ کرلیا۔ غزہ کا ایک چھوٹا سا علاقہ جو فلسطینیوں کے پاس ہے، اس پر بھی اسرائیل نے متعدد مرتبہ حملے کرکے اس کو ہڑپ کرنے کی کوشش کی ہے۔ انتہا یہ ہے کہ غزہ کی 20لاکھ اآبادی کو اسرائیل نے ایک کھلی جیل میں تبدیل کر دیا ہے۔ ہر تھوڑے دن بعد غزہ پر بمباری کر کے اسرائیل معصوم فلسطینی بچوں کا قتل کر دیتا ہے۔ ان کی املاک کو تباہ و برباد کر دیتا ہے۔ حماس کی حالیہ کارروائی کے بعد اسرائیل نے غزہ کی مکمل ناکہ بندی کر دی ہے۔ وہاں برقی سربراہی منقطع کر دی گئی، غذائی اجناس پر پابندی عائد کردی ہے۔ حتی کہ مریضوں کو دوائیں بھی نہیں پہنچائی جا سکتیں۔ یہ ظلم کی انتہا ہے۔
اس بدترین ظلم کے خلاف اسرائیل نواز طاقتیں کوئی احتجاج نہیں کرتیں اور نہ اسرائیل کے خلاف بین الاقوامی قوانین کے مطابق کوئی تادیبی کارروائی کی جا تی ہے۔ اس سے ان کے دوغلے پن کا اظہار ہو تا ہے۔ اسرائیل کی دہشت گردی اب طشت ازبام ہو چکی ہے۔ حالات سے با خبر ہر شخص جانتا ہے کہ 14 مئی 1948کو فلسطین کی سرزمین پر اسرائیلی مملکت کے قائم ہونے کے بعد سے اسرائیل فلسطینیوں کے خلاف مسلسل مجرمانہ کارستانیاں انجام دیتا رہا۔ کبھی مسجد اقصیٰ کو منہدم کرنے کی مذموم کوشش اور کبھی مسجد اقصیٰ کو آگ لگانے کی سازش تو کبھی فلسطینیوں کو مسجد اقصیٰ میں نماز پڑھنے سے روکنے کا عمل گز شتہ 75سال سے جا ری ہے۔ فلسطینی عوام اسرائیل کے سنگدلانہ رویہ پر ہمیشہ احتجاج کرتے رہے، لیکن اسرائیل اپنی شیطانی حرکتوں سے باز نہ آیا۔ حماس کی جانب سے گز شتہ ہفتہ اسرائیل کے خلاف جو کارروائی ہوئی اس کا پس منظر یہ ہے کہ اسرائیلی اپنا ایک مخصوص تہوار ” عید العریش “مناتے ہوئے مسجد اقصیٰ کی حرمت کو پامال کر رہے تھے اور فلسطینیوں کو مسجد اقصیٰ میں نماز پڑھنے سے روک رہے تھے۔ اس جارحانہ عمل کا مقصد فلسطینیوں کی عزت ِ نفس کو للکارنا تھا۔ اسی لیے حماس نے 1973کی عرب۔ اسرائیل جنگ کی پچاسویں سالگرہ کے موقع پر تاریخی کا رنامہ انجام دیتے ہوئے اسرائیلی علاقوں پر فوجی آپریشن کر تے ہوئے اسرائیل کے چکھّے چھڑادیئے ۔ اسرائیل کو اس بات کااندازہ ہی نہیں تھا کہ حماس اس قدر خطرناک راکٹ حملے کرتے ہوئے اسے اس قدر ذلت اٹھانے پر مجبور کردے گا۔ آج تک دنیا اسرائیل کی فوجی طاقت کے گن گاتی تھی اور باور کیا جاتا تھا کہ اسرائیل ناقابل تسخیر ہے، لیکن حماس کی چند گھنٹوں کی فوجی کارروائی نے اسرائیل کے سارے دبدبے کو تہس نہس کر کے رکھ دیا۔ حماس نے ثابت کر دیا کہ اسرائیلی جارحیت کا جواب طاقت کے ذریعہ ہی دیا جاسکتا ہے۔ عالم اسلام کے مایہ ناز عالم دین علامہ یوسف القرضاویؒ نے یہی نظریہ برسوں پہلے بالعموم امت مسلمہ کے سامنے اور بالخصوص مسلم حکمرانوں کے سامنے پیش کیا تھا۔ لیکن مسلم حکمرانوں کا یہ المیہ رہا کہ وہ مغربی ممالک کی سازشوں کا شکار ہوکر محض مذاکرات اور معاہدات کے ذریعہ فلسطین اور مسجد اقصیٰ کو حاصل کرنے کا خواب دیکھتے رہے۔ چناچہ کبھی اوسلو معاہدہ کے نام پر اور کبھی کیمپ ڈیوڈ معاہدہ کو تکمیل کر کے عربوں کو دھوکہ دیا گیا اور فلسطین میں اسرائیل کی جڑوں کو مضبوط کیا گیا۔ آج بھی صہیونی طاقتوںکا یہ کھیل جاری ہے۔ حال ہی میں سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان خوشگوار تعلقات کا اشارہ دیا گیا ۔ فلسطینیوں کی نعشوں پر عرب حکمران اپنے محل تعمیر کر رہے ہیں ،لیکن حماس کی اس دلیرانہ کارروائی کے بعد عربوں کے محل بھی اب لزر رہے ہیں۔ عرب حکمران اگر اب بھی فلسطینیوں سے اظہار یگانگت کر تے ہوئے ان کی ہر طرح سے مدد کے لیے تیار نہیں ہوں گے تو عرب کے عوام اپنے حکمرانوں کے خلاف بغاوت کر دیں گے اور ان کے تختِ شاہی عبرت کے نشان بن کر رہ جائیں گے۔ اسرائیل کی کھلی جارحیت کے خلاف فلسطینی جو جدوجہد کر رہے ہیں یہ محض ایک جغرافیائی خطہ کی آزادی کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ اس کی مذہبی حیثیت بھی ہے۔ ارضِ فلسطین اور بیت المقدس سے ساری دنیا کے مسلمانوں کا ایک روحانی اور جذباتی تعلق ہے۔ اس لیے کہ مسجد اقصیٰ مسلمانوں کا قبلہ اول ہے۔ یہ وہ مسجد ہے جہاں سے حضور اکرم ﷺ کے سفر معراج کا آغاز ہوا تھا۔ اللہ کے رسولﷺ نے مدینہ کو ہجرت فرمانے کے بعد سولہ مہینے تک بیت المقد س کی طرف رخ کرکے نماز ادا کی ۔ رجب ۲ ہجری میں جب آپ نماز ظہر کی دو رکعتیں پڑھا چکے تیسری رکعت میں اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعہ آپ کو اپنا رخ مسجد ِ حرام کی طرف پھیرنے کا حکم دیا۔ مسجد اقصیٰ کی بازیابی اور فلسطین کو صہیونی طاقتوں سے پاک کرنا امت کا دینی و ملّی فریضہ ہے۔
اسرائیل نے گزشتہ پون صدی سے ارضِ فلسطین میں رقصِ ابلیس مچا رکھا ہے۔ یہودی قوم اٹھارہ صدیوں تک دربدر بھٹک رہی تھی۔ کوئی ملک اسے جائے پناہ دینے کے لئے تیار نہ تھا۔ یہ مسلمانوں کی شرافت تھی کہ ایسی دھتکاری ہوئی قوم کو انہوں نے فلسطین میں رہنے کی اجازت دی۔ لیکن آج یہودی قوم احسان فراموشی کا بدترین ثبوت دیتے ہوئے فلسطینیوں کو ان کے وطن سے بے دخل کرنے کی گھناو¿نی حرکتیں کر رہی ہے۔ برطانیہ کی حکومت نے 1917میں یہودیوں سے خفیہ معاہدہ کرکے عربوں کے ساتھ بد دیانتی کی۔ ”اعلان بالفور “ معاہد ہ کے ذریعہ فلسطین میں یہودیوں کو ایک خود مختار مملکت بنانے کا موقعہ دیا گیا۔ اسی معاہدہ کی بنیاد پر 1948میں فلسطین کے علاقہ پر اسرائیلی مملکت قائم کردی گئی۔اس کے بعد سے اسرائیل کے حوصلے بلند ہوتے چلے گئے اور اس نے فلسطینیوں پر وہ مظالم ڈھائے کہ دنیا کی تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ غزہ کے علاقہ میں گز شتہ10 سال سے اسرائیل مسلسل فلسطینیوں کے خون سے ہولی کھیل رہا ہے۔ 2012 میں 21دن تک اسرائیل نے غزہ پر بم برسائے۔ پھر 2014سے ابھی تک اسرائیل اپنی جارحانہ کارروائیوں کو جاری رکھا ہوا ہے۔ اس کی اس دہشت گردی سے سارا غزہ کا علاقہ خون سے لہولہان ہو گیا۔ غزہ کی ناکہ بندی کردی گئی۔ 20لاکھ غزہ کی آبادی کو محصور کرکے رکھ دینا، اکیسویں صدی کا وہ جرم ِ عظیم ہے کہ اسے معاف نہیں کیا جاسکتا۔ اسرائیل کی اس کھلی جارحیت کے خلاف فلسطینیوںنے دشمن سے مقابلہ کرتے ہوئے موت کو بھی گلے لگانے کا عزم مصمم کرلیا ہے۔ جدید ترین اسلحہ سے لیس قوم کو انہوں نے گزشتہ پانچ دن کے دوران ایسا سبق سکھایا کہ اسرائیل اب فلسطینیوں کے خلاف کوئی اقدام کرنے کے بارے میں ہزار مرتبہ سوچنے پر مجبور ہو گیا ہے۔ 7 اکتوبر سے جاری حماس کی فوجی کارروائی کا اسرائیل بدلہ لے رہا ہے۔ اس نے غزہ کے رہائشی علاقوں پر بمباری کرکے بے گناہ فلسطینیوں کی جا نیں بھی لی ہیں۔ لیکن اس سے فلسطینیوں کے حوصلے پست نہیں ہوئے ہیں۔ حماس کے سینئر قائد ابو موسیٰ مرذوق نے اعلان کر دیا ہے کہ اگر جنگ طول پکڑتی ہے تو حماس اس کے لیے تیار ہے۔ وہ اپنے مقاصد کے حصول تک اپنی جدوجہد کو جاری رکھے گی۔ غزہ میں پانی، بجلی خوراک اور گیس کا ذخیرہ ختم ہونے کے باوجود غزہ کے عوام اسرائیل کے آگے جھکنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ حماس نے جمعہ کو اسرائیل کے خلاف ”یوم طوفان ِ اقصیٰ “منانے کا اعلان کیا ہے تا کہ دنیا قابض اسرائیلی قوم کے مظالم سے آگاہ ہواور فلسطینی غاصب قوم کو فلسطین سے بے دخل کرسکیں۔ فلسطینیوں سے اپنی یکجہتی کا ثبوت دیتے ہوئے 13 اکتوبر جمعہ کو ان کی حمایت میں سارے مسلمان یہ دن منائیں اور دنیا کی ظالم قوتوں کو پیغام دیں کہ مسجدِ اقصیٰ کی بازیابی اور ارضِ فلسطین کی آزادی کے لیے وہ دل وجان کے ساتھ فلسطینیوں کے ساتھ ہیں۔
ہندوستانیوں کے لیے یہ بات انتہائی افسوسناک ہے کہ اس ملک کی حکومت نے ظالم کا ساتھ دینے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ وزیراعظم نریندرمودی نے ببانگ دہل اعلان کر دیا کہ وہ اسرائیل کے ساتھ کھڑے ہیں۔ انہوں نے اسرائیلی وزیراعظم نتن یاہو کو فون کر کے یقین دلایا کہ وہ اس مشکل گھڑی میں ان کا ساتھ دیں گے۔ بی جے پی حکومت کا یہ اقدام ہندوستان کی خارجہ پالیسی کے عین خلاف ہے۔ہندوستان پہلے دن سے فلسطینیوں کا ساتھ دیتا رہا۔ گاندھی جی کے یہ تاریخی الفاظ تھے کہ فلسطین، فلسطینیوں کا ہے۔ خود بی جے پی کے قدآور قائد اٹل بہاری واجپائی نے اپنے دور حکومت میں کھلے عام فلسطینیوں کی تائید کی اور کہا کہ اسرائیل کو وہاں سے اپنا قبضہ ختم کرناہوگا اور فلسطینیوں کو ان کا ملک واپس ملنا چاہیے۔آج نریندرمودی اسرائیل کی حمایت کن بنیادوں پر کر رہے ہیں اس کا ان کو جواب دینا ہوگا۔
٭٭٭