مولوی نصیر الدین ہاشمی مرحوم

[]

مولوی نصیر الدین ہاشمی حیدر آباد کے ایک ممتاز ادیب، محقق اور ماہر دکنیات تھے۔ ان کی گرانقدر تحقیقات، تالیفات اور تصنیفات کو اردو ادب کی تاریخ میں نمایاں اور اہم مقام حاصل ہے۔ دکن اور دکنیات ان کی زندگی کا ایک ایسا موضوع تھا جس پر وہ آخری لمحوں تک کام کرتے رہے۔ ہاشمی صاحب جن کا پورا نام نصیرالدین محمد عبد الباری تھا حیدر آباد کے ایک معزز قبیلہ قریش کے ہاشمی گھرانے میں پیدا ہوئے۔

ان کے اجداد ان اصحاب میں شامل تھے جو عراق و حجاز سے مغربی ساحل پر آج سے زائد از ایک ہزار سال پہلے آئے اور شاہی سلطنت میں معزز خدمتوں پر فائزہوئے۔چارپشت تک گواکی قضائت انجام دی۔ پھر عہدِ عالمگیری میں سدھوٹ کے قلعہ دار بنے، وہاں سے ارکاٹ گئے اور تین پشت تک دیوانی کے فرائض انجام دیئے۔ سرکاری ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ تصنیف و تالیف اور درس و تدریس میں بھی مصروف رہے۔

ہاشمی صاحب مرحوم کے اجداد میں مفتی عطاء احمد، مفتی مخدوم اسحاق (بھڑوچ، گجرات)، فقی مخدوم اسمٰعیل (بھٹکل، شمالی کنڑا)، فقی مخدوم علی مہائمی (ماہم بمبئی)، قاضی محمود کبیر، قاضی رضی الدین مرتضیٰ (گوا)، قاضی نظام الدین احمد کبیر، مولانا حبیب اللہ بیجاپوری (بیجا پور)، مولوی عبداللہ شہید (ناڑ پتری)، مولوی محمد حسین امام المدرسین (بید)، مولوی محمد غوث شرف الملک، مولوی عبدالو باب مدار الامرا، قاضی بدر الدولہ، شمس العلماء قاضی عبید اللہ اور مولوی غلام محمد شرف الدولہ (مدراس) قابل ذکر ہیں۔ سرسالار جنگ اوّل کی خواہش پر ان کا خاندان حیدر آباد آیا۔ یہاں ان کے والد مولوی عبد القادر منصف عدالت اور رجسٹرار بلدہ رہے اور ان کے نانا مولوی حسین عطاء اللہ صاحب نائب معتمد فینانس اور آخر میں سر آسماں جاہ مدارالمہام ریاست حیدرآباد کے سکریٹری مقرر ہوئے۔ ان کی ملکی وعلمی خدمات قابلِ ذکر ہیں۔ دکن کے مستند تذکروں اور تاریخوں میں ان کا نام بار بار آیا ہے۔

باشمی صاحب 15مارچ1895ء م 17رمضان 1312ھ برو ز جمعہ حیدر آباد دکن میں پیدا ہوئے۔ ہاشمی صاحب کی تعلیم و تربیت دارالعلوم حیدر آباد میں ہوئی جہاں سے انھوں نے منشی اور مولوی عالم کا امتحان کامیاب کیا۔ اس کے علاوہ مدراس یونیورسٹی کے منشی فاضل بھی تھے لیکن کہنا چاہیے ان کی اصل تعلیم تو دارالعلوم کی چاردیواری کے باہر ہوئی۔ مولانا شبلی اور مولوی عبدالحلیم شرر لکھنوی کی تصانیف سے زیادہ دلچسپی رہی۔

حضرت امجد حیدر آبادی سے دار العلوم ہی نہیں عمر بھر ساتھ رہا۔ ہندوستان کے مشہور کتب خانوں سے علمی پیاس نہ بجھی تو انگلستان، فرانس اور اٹلی کا تعلیمی سفر کیا۔ وہاں کے کتب خانوں اور مغربی عالموں اور متشرقوں سے استفادہ کیا۔ تعلیم کی تکمیل کے بعد ہاشمی صاحب دفتر دیوانی ومال (سنٹرل ریکارڈ آفس) میں ملازم ہوئے اور اپنی فرض شناسی اور دیانتداری کی وجہ سے مسلسل ترقی کرتے گئے۔ آخر سررشتہ رجسٹریشن و اسٹامپ میں بہ حیثیت رجسٹرار بلدہ ممالک محروسہ سرکار عالی کی حیثیت سے 1950ء میں وظیفہ حسنِ خدمت پر سبکدوش ہوئے۔ 1953ء سے 1957ء تک تاریخِ آزادیِ ہند کے سلسلے میں ریسرچ اسکالر کی حیثیت سے مامور رہے۔

ہاشمی صاحب کو سیر و سیاحت کا کافی موقع ملا۔ ہندستان کے کئی شہر، متعدد اضلاع اور بے شمار تعلقے دیکھے۔ حکومت آصفیہ کے وظیفہ پر برطانیہ، اسکاٹ لینڈ، فرانس اور اٹلی کی سیاحت کی اور اپنی والدہ کے ہمراہ عراق، بصرہ، بغداد، کاظمین، کربلا اور نجف اشرف گئے۔ اس کے علاوہ کراچی ولاہور کا بھی سفر کیا تھا۔ ہاشمی صاحب نے 26 ستمبر 1964ء مطابق18 جمادی الاول1384 ء بروز شنبہ دن کے گیارہ بجے داعیِ اجل کو لبیک کہا۔ تدفین اسی دن شام میں درگاہ حضرت سید احمد باد پاد احمد نگر حیدر آباد میں عمل میں آئی۔ قطعہ تاریخ وفات حسب ذیل ہے۔

موت نے آج یہ کیا سخت ستم توڑا ہے
کتنی بے کس نظر آتی ہے وطن میں اردو
ایک دکنی جو اٹھا سال یہ رحلت کا ملا
84
ہاشمی چل بسا روتی ہے دکن میں اردو
1486-84 = 1384ھ
(اکبر الدین صدیقی)

ہاشمی صاحب کو تصنیف و تالیف کا شوق بچپن سے تھا۔ ان کی پہلی تالیف ”دکن میں اردو“ ہے۔ اس کتاب نے اردو کی ادبی تاریخ میں جتنی شہرت اور مقبولیت حاصل کی، وہ اس موضوع پر کسی اور کتاب کو نہ مل سکی۔ اس کتاب کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے ہوتا ہے کہ اس کا عنوان اور صوبوں میں اردو کی نشو و نما پر تحقیق و تالیف کے لیے ایک نمونہ، ایک بنیاد او ایک طرح بن گیا۔ اس مشہور تالیف کی اشاعت کے بعد وہ سرکاری وظیفہ سے یورپ گئے۔ برطانیہ (انگلستان)، فرانس اور اٹلی کے کتب خانوں سے جو مواد اکٹھا کیا، اس کو ”یورپ میں دکنی مخطوطات“ کے نام سے مرتب کر کے شائع کیا۔ ان مشہور اور مقبول عام کتابوں کے علاوہ ان کی حسب ذیل کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔

(1) دکن میں اردو (جس کے ہندوستان اور پاکستان سے سات ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں (2) سلاطینِ دکن کی ہندوستانی شاعری (1933) (3) حضرت امجد کی شاعری (1934ء)، (4) مدراس میں اردو (1938ء)، (5) مقالاتِ ہاشمی (1939ء)، (6) دکنی ہندو اور اردو (1956ء)، (7) دکنی (قدیم اردو) کے چند تحقیقی مضامین (1963ء)

قلمی کتابوں کی وضاحتی فہرستیں

(1) یورپ میں دکنی مخطوطات(1932ء)، (2) دفتر دیوانی کے اردو مخطوطات (1935)، (3) سنٹرل ریکارڈ آفس کے اردو مخطوطات (1945ء)، (4) کتب خانہ سالار جنگ کی اردو قلمی کتابوں کی وضاحتی فہرست (1957ء)، (5) کتب خانہ آصفیہ کے اردو مخطوطات (دو جلدیں) 1961ء

(1) ذکر نبی صلعم (1934)، (2) تذکرہ دار العلوم (1944ء)، (3) تاریخ عطیات آصفی (1944ء)، (4) جلوہ زار (1944)، (5) تذکرہ مرتضیٰ (1945)، (6) عہد آصفی کی قدیم تعلیم (1946)، (7) آج کا حیدر آباد (1952)، (8) جنگ آزادی کی کہانی (1957ء)، (9) مولوی عبد القادر (1963ء)، (10) دکنی کلچر (1963ء)

(1) خواتین عہدِ عثمانی (1936ء)، (2) جنابان نسوان (1938ء)، (3)خواتین دکن کی اردو خدمات (1940ء)، (4) حیدر آباد کی نسوانی دنیا (1944ء)، (5) تذکرہ حیات بخشی بیگم (1952ء)

(1) نجم الثاقب (فقہ شافعی) (1922ء اور1978ء)، (2) رہبر سفر یورپ (1944ء)، (3) فلم نما (1940ء) (4) مکتوبات امجد (1944ء)، (5) زبیدہ کے دیس میں (1955ء)

ان تصانیف کے علاوہ ہاشمی صاحب نے تقریباً ایک ہزار کے قریب اہم تحقیقی مضامین اور مقالے لکھے۔ ہاشمی صاحب کے مضامین کی ایک فہرست ماہ نامہ ”سب رس“ حیدر آباد کے ہاشمی نمبر (جنوری ۱۹۶۵ء) میں موجود ہے۔ ہاشمی صاحب مرحوم کی علمی، ادبی، لسانی، تاریخی، مذہبی اور تحقیقی خدمات اردو ادب کا گراں سرمایہ ہیں جو ان کی یاد کو ہمیشہ تازہ رکھیں گی۔



[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *