"طوفان الاقصی" کے صہیونی فورسز پر نفسیاتی اثرات

[]

مہر خبررساں ایجنسی-بین الاقوامی ڈیسک؛ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ طوفان الاقصی مقاومتی محاذ کی طرف سے صہیونی حکومت کے خلاف شروع کیا جانے والا تاریخ کے پیچیدہ ترین آپریشنز میں سے ایک ہے۔ حماس اور دیگر تنظیموں نے اس حکومت کے خلاف کاروائی کی جس کے پاس خطے کا سب سے ترقی یافتہ اور جدید ترین سیکورٹی سسٹم تھا۔

ہفتے کی صبح شروع ہونے والی کاروائی میں حماس نے راکٹ اور میزائل حملوں کے علاوہ صہیونی علاقوں میں گھس کر صہیونی فورسز اور عوام سے براہ راست جنگ کی جس سے صہیونی حکومت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا۔

جانی اور مالی نقصانات کے علاوہ اس کاروائی کے نفسیاتی اثرات سالوں تک صہیونیوں کے ذہن اور اعصاب پر سوار رہیں گے۔

صہیونی حکومت کو ہونے والی اس تاریخی اور شرمناک شکست کی نسلوں تک بازگشت سنائی دے گی گویا یہ حملہ اسرائیل کے لئے گیارہ ستمبر کے حملوں کی مانند ہے جس کو امریکہ اپنی سیکورٹی اور سلامتی کے ضامن اداروں کی ناکامی قرار دیتا ہے۔

ہر جنگ میں فوجیوں پر نفسیاتی دباو آتا ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق ہر جنگ کے دوران 10 فیصد لوگ نفسیاتی طور پر اس سے متاثر ہوتے ہیں جس میں افسردگی، بے چینی اور بے سکونی جیسے امراض شامل ہیں۔

امریکی ریزرو فوج کے اعلی افسر ڈاکٹر اسٹیوساگڈن  کے مطابق حملہ ہونے والے ملک کے سویلین اور دونوں اطراف کے فوجی مختلف ذرائع سے جنگی کے حالات کو مشاہدہ کرتے ہیں۔ فوجیوں پر ہونے والے نفسیاتی اثرات میں سے یہ ہے کہ بڑی تعداد میں فوجی کوما میں جاسکتے ہیں۔ فوجیوں میں خودکشی کا رجحان بڑھ جاتا ہے۔ پوری دنیا میں اس طرح کی صورتحال سے فوجی اہلکار متاثر ہوتے ہیں جس کے نتیجے میں خاندانی نظام میں مشکلات، بے روزگاری اور منشیات کی عادت جیسے جرائم جنم لیتے ہیں۔

فلسطینی مجاہدین کی جانب سے طوفان الاقصی آپریشن کو کئی دن گزر گئے ہیں۔ اس واقعے کے بعد سالوں تک اسرائیلی فوجیوں پر اس کے اثرات باقی رہیں گے۔ صہیونی فوجیوں کو لاحق ہونے والی نفسیاتی بیماریوں کا دائرہ وسیع اور پیچیدہ ہوگا کیونکہ ان ہونے والا حملہ اچانک تھا جس کی وجہ سے یہ ایک ناخوشگوار سرپرائز بن گیا۔ دوسری بات یہ ہے کہ ان کا سامنا اس گروہ سے ہوا جس پر کئی بار انہوں نے فضائی اور زمینی راستوں سے شدید حملہ کیا ہے۔ اپنے سے نسبتا کمزور گروہ سے شکست کا خیال کافی عرصے تک صہیونی فوجیوں کو اندر سے نڈھال کردے گا۔

2020 میں ہونے والے سروے میں بتایا گیا تھا کہ اسرائیلی بیمار فوجیوں میں سے پانچ ہزار سے زائد کو اضطراب اور افسردگی کی بیماری لاحق ہے۔ 2014 سے 2019 تک ہونے والی جنگوں کے دوران نفسیاتی بیماری میں مبتلا ہونے کے 600 واقعات ریکارڈ ہوئے ہیں۔ صہیونی حکومت کی جانب سے فراہم کردہ دیگر اعداد و شمار کی طرح اس میں بھی حقائق چھپانے کے زیادہ امکانات ہیں اس طرح حقیقی اعداد و شمار اس سے کہیں زیادہ ہوسکتے ہیں۔

جنگوں میں صدمات کا شکار ہونے سے پورا جسمانی نظام متاثر ہوجاتا ہے۔ اس بیماری میں مبتلا ہونے والوں کی اکثریت فوجیوں کی صحیح دیکھ بھال نہ کرنے کی وجہ سے حکومت کو مورد الزام ٹھہراتی ہے۔ 2022 کے اوائل میں اسرائیلی فوج کے سابق اہلکار نے حکومت کی جانب سے میڈیکل بورڈ کی درخواست مسترد کیے جانے پر دلبرداشتہ ہوکر خودکشی کی تھی۔

ذہنی صدمہ پہنچنے کی بیماری کی تشخیص میں زیادہ عرصہ لگ جاتا ہے جس کی وجہ اس کا علاج شروع کرنے میں بھی بہت دیر ہوجاتی ہے گویا یہ خفیہ ذہنی صدمہ ہوتا ہے جس سے انسان اور معاشرہ درد محسوس کرتا ہے۔ اسرائیل میں ایسے افراد کی تعداد زیادہ ہونے کی وجہ گھریلو تنازعات اور بچوں اور خواتین پر تشدد کے واقعات میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔

اسرائیل میں فوجی ٹریننگ کے دوران خودکشی کی شرح بھی بہت زیادہ ہے ان میں سے بیشتر کی وجہ افسردگی اور اضطراب بتایا جاتا ہے۔ اسرائیل میں یہودی اور دیگر اقوام کے مرد اور عورتوں پر فوجی ٹریننگ حاصل کرنا لازمی ہے۔ مردوں کو دو سال آٹھ مہینے اور عورتوں کو پورے دو سال کی ٹریننگ حاصل کرنا پڑتا ہے۔ جس کے بعد چالیس سال تک ان کو چھٹی دی جاتی ہے لیکن کسی بھی موقع پر بلایا جائے تو فورا ڈیوٹی پر آنا ضروری ہے۔ فوج میں ٹریننگ اور ملازمت کے دوران لاحق ہونے والی بیماریوں کی وجہ سے اسرائیلی معاشرہ شدید متاثر ہورہا ہے۔

صہیونی حکومت سال میں کئی مرتبہ فلسطین اور لبنان میں مقاومتی محاذ کے ساتھ جنگ میں ملوث ہوتی ہے۔ ہر وقت جنگ کی فضا قائم ہونے کی وجہ سے مقبوضہ علاقوں کے صہیونی 40 سال تک خود کو فوجی سمجھتے ہیں جس کو کسی بھی لمحے بلایا جاسکتا ہے۔ یہ احساس خود اسرائیلیوں کو نفسیاتی بیماری میں مبتلا کرنے کا ایک سبب ہے۔

حماس کی جنگی صلاحیتوں کو دیکھتے ہوئے جنگ جاری رہنے کی صورت مزید حیرتناک واقعات سامنے آسکتے ہیں۔ فلسطینی شہروں میں جنایت کا مرتکب ہونے والے اسرائیلی فوجیوں کو بعد میں نفسیاتی ہسپتالوں اور ڈاکٹروں سے رجوع کرنے کے دوران اس کا تاوان ادا کرنا ہوگا۔

[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *