نکما کر دیا ہے کاہلی نے گو ہمیں لیکن …

[]

حمید عادل

ایک خبر…
’’یورپ کے جنوب مشرقی ملک مونٹی نیگرو میں ’’ سست ترین شہری‘‘ کا مقابلہ جاری ہے ، رپورٹس کے مطابق مونٹی نیگرو میں سست ترین شہری منتخب کرنے کا مقابلہ دراصل ایک روایت ہے اورجیتنے والے شہری کو 1070امریکی ڈالر نقد انعام سے نوازا جاتا ہے ۔ یہ مقابلہ جتنا دلچسپ ہے ا س کے اصول اور بھی زیادہ عجیب و غریب ہیں۔ مقابلے میں شرکت کرنے والوں کوچوبیس گھنٹوں میں کھڑے رہنے اور نہ ہی بیٹھنے کی اجازت ہے بلکہ صرف انہیں لیٹے لیٹے اپنے مقابلے کو پورا کرنا ہے ۔ بتایا گیا ہے کہ شرکا کو مقابلے میں کھانے پینے ،سونے ، کتابیں پڑھنے اور فون استعمال کرنے کے علاوہ شرکا کو ہر آٹھ گھنٹے میں دس منٹ کے لیے واش روم جانے کی اجازت بھی دی گئی ہے ۔‘‘
اس خبر کو پڑھ کر کلیم کلبلا چہک اٹھے ’’ کاش ! ایسا مقابلہ یہاں ہوتاتوہر سال میرا بیٹا ہی چمپئن بنتا۔‘‘
’’اس وثوق کے ساتھ تم کیسے کہہ سکتے ہو؟‘‘ ہم نے سوال اچھالا۔
’’ ارے وہ پیدائشی کاہل ہے ،بچپن میںماسٹر صاحب نے کاہلی پر مضمون لکھ کر لانے کے لیے کہا اوردوسرے دن اس کی کاپی چیک کی تو تمام صفحات خالی تھے …اور آخری صفحے کے نیچے میرے ہونہار لڑکے نے لکھا تھا :’’ اسے کہتے ہیں کاہلی ۔‘‘بنا پڑھے بڑا ہوا اور اب ہر وقت گھر میں پڑا رہتا ہے ،کوئی کام کاج نہیں کرتا،البتہ مفت کی روٹیاں نہ صرف توڑتا ہے بلکہ توڑ کر کھا بھی جاتا ہے ۔‘‘
’’ پھر وہ کاہل کیسے ہوا؟روٹیاںتوڑنا اور توڑ کر کھانابھی تو کام ہوا ناں!‘‘ہم نے کلبلا کو چھیڑا۔
کلیم کلبلا تڑخے ’’ تم کیا چاہتے ہو، میں مفت کی روٹیاں بھی توڑ کر دوں اس نا معقول کو ؟‘‘
’’ ہمارا یہ مطلب نہیں تھا، ہم تو …‘‘
’’ خوب جانتا ہوں تمہارے مطلب کو اور تمہاری باتوں کو…جلتی پر تیل چھڑکنابند کرو …‘‘ کلیم کلبلا ہم سے ناراض ہوگئے ، منانے کی لاکھ کوششوں کے باوجود بھی وہ رکے نہیں اوریہ جا وہ جا ہوگئے …
کلیم کلبلا پر ہی کیا منحصر ہے تقریباً ہر باپ کو اپنے بیٹے کی کاہلی سے شکایت ہے :
دولت مند باپ نے اپنے کاہل اور نکھٹو بیٹے کو ڈانٹتے ہوئے کہا: ’’تم نہایت ہی کاہل اور سست آدمی ہو، کوئی کام وغیرہ نہیں کرتے۔ بس ہر وقت پڑے رہتے ہو، فرض کرو تمہاری شادی ہو جائے اور تمہاری بیوی تمہیں کام کرنے پر مجبور کرے تو تم کیا کرو گے ‘‘؟
’’دوسری بیوی کی تلاش‘‘۔ بیٹے نے بڑے اطمینان سے جواب دیا۔
دوستو! ہماری کاہلی کی گواہ فجر کی نماز ہے،جب ہر مسجد میں بہت کم تعداد میں لوگ ہوتے ہیں…چنانچہ اسماعیل میرٹھی کو نظم ’’ صبح کی آمد‘‘میںکہنا پڑا:
کرو گے بھلا کاہلی تم کہاں تک
اٹھو سونے والو کہ میں آرہی ہوں
ہماری کاہلی کی یہ بھی ایک مثال ہے کہ ہم بنا محنت کیے جلد از جلد دولت مند بنناچاہتے ہیں …چنانچہ ہر دور میں ٹھگ حضرات نے ہمارے اس مزاج کا بھرپور فائدہ اٹھایا لیکن مزے کی بات یہ ہے کہ ہم اپنی کاہلی سے باز آئے اور نہ ٹھگ حضرات ہمیں لوٹنے سے … سڑک پر ہم بھلے ہی ایک دوسرے کو پھاند کر بلکہ روند کرآگے نکل جانے کا رجحان رکھتے ہوں لیکن اندر سے ہم کاہل ہی ہیں …بطور خاص نئی نسل آرام طلبی کی عادی ہوتی جارہی ہے ،امریکہ کی کورنیل یونیورسٹی سے منسلک کیٹلِن وْولی کی ایک نئی تحقیق میں یہ بھید کھلا ہے کہ لوگوں کو اگر اپنے کام کا پھل فوراً ملنا شروع ہو جاتا ہے تو وہ زیادہ محنت کرنے کی کوشش کرتے ہیں، بہ نسبت اس وقت جب انہیں اپنے کام کا صلہ انتظار کے بعد ملتا ہے …’’ اور یہی انتظار انہیں کاہل بنا دیتا ہے …‘‘ آخری جملہ کورنیل یونیورسٹی کا نہیں ہمارا ہے …
معروف مزاح نگار ابن انشا کہتے ہیں ’’سچ یہ ہے کہ کاہلی میں جو مزہ ہے وہ کاہل ہی جانتے ہیں۔ بھاگ دوڑ کرنے والے اور صبح صبح اٹھنے والے اور ورزش پسند اس مزے کو کیا جانیں۔ ‘‘
معروف قلمکار وسیم احمد ’’سْستی ہزار نعمت ہے‘‘ میں ابن انشا کی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’بچپن میں اپنے بڑوں سے سنا تھا کہ سستی ایک بری عادت ہے، اور بچوں کو اس عادت سے بچنا چاہیے۔بڑے ہوئے تو اپنی کلاس کے اکثر سست الوجود دوستوں کو کامیاب سیاست دان، سرکاری افسر اور فنکار بنتے دیکھا تو اپنی محنت اور جاں فشانی پر نہ صرف افسوس ہوا بلکہ یہ صدمہ بھی جان کو لاحق ہوگیا کہ ’’محنتِ لاحاصل‘‘ کے چکر میں ناحق اپنی جوانی برباد کی۔ رہی سہی کسر مطالعے کی عادت نے پوری کردی، جس کی وجہ سے کچھ ایسی کتابیں پڑھنے کو ملیں جن میں پوری تحقیق سے یہ ثابت کیا گیا تھا کہ سستی ایک مفید عمل ہے، اگرچہ عقل مندی سے کی جائے۔‘‘
کویل،’’ سستی ایک مفید عمل ہے، اگرچہ عقل مندی سے کی جائے۔‘‘پرکامل یقین رکھتی ہے ،حتیٰ کہ وہ اپنا گھونسلہ تک نہیں بناتی بلکہ دوسرے پرندوں کے گھونسلے میں اپنے انڈے دیتی ہے، عموماً کوے کے گھونسلے میں…جہاں کوا ،ان انڈوں اور ان انڈوں سے نکلنے والے بچوں کی دل و جاں سے دیکھ بھال کرتا ہے …سادہ لوح کوا آج تک اس بات کو سمجھ ہی نہیں سکا ہے کہ وہ جن انڈوں کو اپنے انڈے اور ان انڈوں سے نکلنے والے بچوں کو اپنے بچے سمجھتا ہے وہ دراصل اس کے ہوتے ہی نہیں ہیں …زمانہ ترقی کرگیا، لیکن بیچارہ کوا کل جہاں تھا آج بھی وہیں ہے اور وہ کویل کے انڈے سینک سینک کر خوش ہوتاہے …چمن بیگ کہتے ہیں ’’ دنیا میں کویل جیسا کوئی اور پرندہ نہیں، آج ہم کام چور حضرات کے لیے جو لفظ ’’ کاہل‘‘ استعمال کرتے ہیں ،وہ دراصل ’’ کویل‘‘ ہی ہے ،چوں کہ حضرت انسان کو ’’ کویل‘‘ کہنا زیب نہیں دیتا، اس لیے لفظ ’’ کویل‘‘ میں ذرا سی تبدیلی کے ساتھ ’’ کاہل‘‘ کردیا گیا …‘‘ جب کہ چمن بیگ کے جڑوابھائی گارڈن بیگ کا خیال ہے کہ ’’دنیا میں جتنے کام کاہلوں نے کیے، یہ بھاگ دوڑ کرنے والے کچھ بھی نہیں کر سکتے۔‘‘
ایک شخص بیچ رستے میں پاؤں پھیلائے پڑا تھا۔ ایک گاڑی بان اس راستے آیا تو اس نے آواز دی۔ ’’ارے اٹھ جا، ورنہ ابھی تیری ٹانگیں کچلی جائیں گی۔‘‘ کاہل شخص نے اپنے پاؤں کی طرف دیکھا وہاں اسے جوتا نظر نہ آیا جو گھر سے پہن کر چلا تھا کیوںکہ سوتے میں کسی نے اتار لیا تھا۔ مطمئن ہوکر اس نے گاڑی بان سے کہا ’’گزار دے گاڑی! یہ میری ٹانگیں نہیں ہیں۔‘‘
کاہل دنیا کے کونے کونے میں آباد ہیں،ایک تحقیق میں دنیا کا سب سے آرام طلب ملک کویت کو قرار دیا گیا ، جہاں67 فیصد آبادی آرام طلبی کی خواہشمند ہے۔ 168 ممالک کی فہرست میں، ہندوستان کو رینک نمبر 117 پر جگہ ملی ہے، ہماری آبادی کا 34 فیصد فعال نہیں ہے بلکہ صوفے پر اپنے نیٹ فلکس کا لطف اٹھاتا ہے۔ مجموعی طور پر، دنیا میں صرف تین علاقے کویت، عراق اور سعودی عرب کی 50 فیصد سے زیادہ آبادی ورزش نہیں کرتی…بلغاریہ کے دوسرے بڑے شہر پلوڈیو کو’’کاہلوں اور لفنگوں کا یورپی شہر‘‘کہا جاتا ہے جہاں مختلف کاموں کو اپنے طریقے سے کرنے پر فخر محسوس کیا جاتا ہے۔ جیسے ہی آپ دارالحکومت صوفیہ سے آنے والی بس سے اترتے ہیں، آپ کو یہاں زندگی کی رفتار میں تبدیلی محسوس ہو گی۔لوگ زیادہ آہستہ چلتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں، ایسا لگتا ہے کہ ان کے پاس زیادہ بلکہ بہت زیادہ وقت ہے، جب کہ ٹریفک کا بھی اتنا رش نہیں ہوتا ہے، کیوں کہ کوئی گھر سے باہر نکلنے کی بجائے گھر میں آرام کرنے کو ترجیح دیتا ہے۔
وہ کاہلی ہے کہ دل کی طرف سے غافل ہیں
خود اپنے گھر کا بھی ہم سے نہ انتظام ہوا
احمد جاوید
مشکوک حیدرآبادی سمجھتے ہیں کہ سستی اور کاہلی بھی حضرت انسان کے لیے نعمت ہے ،تاکہ زندگی سے لطف اندوز ہونے کے لیے تھوڑا وقفہ کرنا اور تھوڑا سا توقف کرنا توانائی کو دوبارہ حاصل کرنے اور چیزوں کو ایک نئے نقطہ نظر سے دیکھنے میں مدد کرتا ہے۔ ہر سال’’ نیشنل لیزی ڈے ‘‘امریکہ میں بہت شان و شوکت کے ساتھ منایا جاتا ہے اور اس تصور کو دوسرے ممالک نے بھی گود لے لیا ہے۔ان ممالک میں کولمبیا بھی شامل ہے، جہاں ایسے افراد کے لیے ہر سال باقاعدگی کے ساتھ ایک دن منایا جاتا ہے، جس میں شہر بھر سے سست اور کاہل ترین افراد اپنے بستروں سمیت سڑکوں پر نکل آتے ہیں…اس موقع پر شہر کی مختلف سڑکوں پر سینکڑوں افرادنائٹ سوٹ زیب تن کیے اپنے بیڈپر لیٹے اور نیند کے مزے لوٹتے دکھائی دیتے ہیں…
دانشور حضرات کا متفقہ کہنا ہے کہ کاہلی (Laziness) کسی شخص کی جانب سے حرکت کرنے سے گریز، کام سے جی چرانے، دھیمی رفتار سے کام کرنے اور اس کے علاوہ کام کی انجام دہی میں ٹال مٹول اور بہانے بازی سے کام لینے کو کہتے ہیں… کیااس قول کو پڑھ کرآپ کے ذہن میں بی جے پی کا تصور نہیں آیا؟آیا ناں…آنا بھی چاہیے …بی جے پی دور حکومت میں ہم کام سے جی چرانے، ٹال مٹول او ربہانے بازی ہی تو دیکھ رہے ہیں…منی پور مہینوں سے جل رہا ہے لیکن وزیراعظم سے منی پور کا دورہ نہیں ہوپارہا ہے …
نکما کر دیا ہے کاہلی نے گو ہمیں لیکن
رگوں میں ہے ہماری خون ابھی تک دوڑتا پھرتا
احمق پھپھوندی
کاہلی سے متعلق سر سید احمد خاں کہتے ہیں کہ ’’صرف ہاتھ پاوں سے محنت نہ کرنا اور چلنے پھرنے میں سستی کرنا ہی کاہلی نہیں ہے بلکہ اصلی کاہلی دل قویٰ کو بیکار چھوڑنے کا نام ہے ۔ دلی قویٰ کو بیکار چھوڑ کر انسان حیوان صفت ہوجاتا ہے ، ہندوستان میں بہت سارے مالدار اس کی واضح مثال ہیں جب تک انسان کاہلی کو چھوڑ کر دل قویٰ سے کام نہیں لے گا تب تک قوم سے بہتری کی توقع نہیں کی جاسکتی۔‘‘
اسپین کے شہر قرطبہ کے نوجوان اپنی تعلیم تدریس اور فنون لطیفہ میں مشغول رہتے تھے مگر جب انہوں نے سستی کو اوڑھنااور کاہلی کو اپنا بچھونا بنایا تو پھر وہ زوال دیکھا کہ پورے اسپین میں قابل نوجوان ملنا محال ہوگئے ،بلاشبہ ’’کام اپنا ہے صبح و شام چلنا،چلنا، چلنا، مدام چلنا‘‘
۰۰۰٭٭٭۰۰۰



[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *