کینیڈا میں سکھ رہنما کا قتلہندوستان اور کینیڈا کے درمیان شدید سفارتی تنائو

[]

مسعود ابدالی

کینیڈا کے وزیراعظم جسٹن ٹروڈو کا کہنا ہے کہ سکھ رہنما ہردیپ سنگھ نِجر کو ہندوستانی خفیہ اداروں نے قتل کروایا ہے۔ خالصتان تحریک کے 45سالہ رہنما 18 جون کو کینیڈین صوبے برٹش کولمبیا کے قصبے سرے(Surrey) میں گوردوارہ نانک صاحب کے سامنے اُس وقت قتل کردیے گئے جب وہاں شام کی پرارتھنا ہورہی تھی۔ گزشتہ ہفتے حزبِ اختلاف کی پارلیمانی پارٹی کے ہنگامی اجلاس کو جناب ٹروڈو نے بتایا کہ حکومت کے پاس ہردیپ سنگھ نجر کے قتل میں ہندوستانی ایجنٹوں کے ملوث ہونے کے ”قابلِ اعتماد“ ثبوت و شواہد موجود ہیں۔ انھوں نے کہا کہ کینیڈا کی سرزمین پر کینیڈین شہری کے قتل میں کسی بھی غیر ملکی حکومت کا ملوث ہونا ہماری خودمختاری کی ناقابلِ قبول خلاف ورزی ہے۔ کینیڈین وزیراعظم نے حکومتِ ہند پر زور دیا کہ وہ اس معاملے کو سلجھانے میں تعاون کرے۔
بعد میں اخباری نمائندوں سے باتیں کرتے ہوئے وزیر خارجہ محترمہ میلینی جولی نے بتایا کہ اٹاوہ کے ہندوستانی سفارت خانے میں تعینات را (RAW)کے افسر کو فوری طور پر ملک چھوڑ دینے کی ہدایت جاری کردی گئی ہے۔ ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق جولی صاحبہ نے نیویارک میں G-7 ممالک کے سفارت کاروں کو بھی معاملے کی سنگینی سے آگاہ کردیا۔
فیصلے کی وضاحت کرتے ہوئے ٹروڈو کابینہ کے وزیر ہرجیت سجن نے CBC ریڈیو کو بتایا کہ حکومت ابلاغِ عامہ کو بتائے بغیر اس معاملے کو سفارتی سطح پرحل کرنا چاہتی تھی لیکن نجر کی ہتیا (قتل) میں بھارت کے ملوث ہونے والی بات پر صحافتی حلقوں میں سرگوشیاں شروع ہوچکی تھیں اس لیے وزیراعظم نے فیصلہ کیا کہ میٖڈیا پر بھانڈا پھوٹنے اور افواہوں کا بازار گرم ہونے سے پہلے عوام کو درست معلومات براہِ راست فراہم کردی جائیں۔
جناب سجن نے کہا کہ ہردیپ سنگھ نجر کو کچھ عرصہ پہلے سے دھمکیاں مل رہی تھیں اور اسی وجہ سے نجر صاحب کو بلٹ پروف جیکٹ بھی دی گئی تھی، ۔جب وزیر موصوٖف سے پوچھا گیا کہ دھمکیوں کے پس منظر میں نجر صاحب کی حفاظت کے لیے اضافی اقدامات کیوں نہ کیے گئے؟ تو انھوں نے کہا کہ پولیس اور ایجنسیاں چوکس تھیں لیکن یہ حادثہ ہوگیا۔
حسبِ توقع دوسرے ہی دن دہلی میں کینیڈا کے ہائی کمشنر کو دفتر خارجہ طلب کرکے ہندوستان میں تعینات ایک سینئر سفارت کار کو ناپسندیدہ شخصیت قرار دے کر ہندوستان سے نکل جانے کا حکم دے دیا گیا۔ ہندوستانی وزارتِ خارجہ کے ترجمان شری ارندم باگچی نے وزارت کا اعلامیہ اپنے ٹوئٹر اکائونٹ پر شائع کردیا جس میں کہا گیا ہے کہ مذکورہ سفارت کار کو ہندوستان کے اندرونی معاملے میں مداخلت اور ہند مخالف سرگرمیوں کی بنا پر 5 دن کے اندر اندر ملک چھوڑنے کا حکم دیا گیا ہے۔
دہلی کی G-20کانفرنس میں میزبان وزیراعظم نے اجلاس کے دوران جسٹن ٹروڈو کو کنارے لے جاکر کینیڈا میں خالصتان تحریک کی سرگرمیوں پر ناراضی کا اظہار کیا تھا، جس کی وضاحت کرتے ہوئے ہندوستانی وزارتِ خارجہ نے ایک بیان میں کہا کہ وزیراعظم مودی کو کینیڈا میں انتہا پسند عناصر کی ہندوستان مخالف سرگرمیوں پر سخت تشویش ہے۔ مودی جی کا خیال ہے کہ وزیراعظم ٹروڈو ہندوستان کے علیحدگی پسندوں کی پشت پناہی اور ہندوستانی سفارت کاروں کے خلاف تشدد کو ہوا دے رہے ہیں۔ ہند سرکار الزام لگا رہی ہے کہ سکھ علیحدگی پسند کینیڈا میں انڈین کمیونٹی کو دھمکانے کے ساتھ وہاں کی ہندو عبادت گاہوں کے قریب پُرتشدد سرگرمیوں میں مصروف ہیں جس کی ٹروڈو حکومت درپردہ حوصلہ افزائی کررہی ہے۔
اٹاوا نے مودی جی کے اس انداز کو سفارتی رکھ رکھائو کے منافی گردانا تھا اور دوسرے ہی دن کینیڈا کی وزیرتجارت محترمہ میری انگ نے اخباری نمائندوں کو بتایا کہ تجارتی معاہدے کے لیے کینیڈا ہند مذاکرات غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کردیے گئے ہیں۔ اس سے پہلے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ہندوستانی وزارتِ تجارت کے ایک افسر نے تجارتی مذاکرات میں تعطل کی تصدیق کرتے ہوئے کہا تھا کہ ”کینیڈا کی اندرونی سیاسی پیش رفت اور اس پر دہلی کے تحفظات بات چیت میں رکاوٹ کا سبب ہیں۔“
کینیڈا کے صحافتی حلقوں کا کہنا ہے کہ وزیراعظم جسٹن ٹروڈو نے ہردیپ سنگھ نجر کے قتل میں ہندوستان کے ملوث ہونے کے ثبوت اپنے قریبی اتحادیوں کو فراہم کردیے ہیں۔ کینیڈا کی وزیر خارجہ نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ جناب جسٹن ٹروڈو نے اس معاملے پر امریکی صدر جوبائیڈن اور برطانوی وزیراعظم رشی سونک سے براہِ راست گفتگو کی ہے۔
اس معاملے پر تبصرہ کرتے ہوئے امریکی قومی سلامتی کے ترجمان جان کربی نے کہا کہ صدر جوبائیڈن ان الزامات کو بہت سنجیدگی سے دیکھ رہے ہیں۔ واشنگٹن میں صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے جناب کربی کا کہنا تھا کہ الزامات کی تحقیقات کے لیے امریکہ، کینیڈا کی کوششوں کی حمایت کرتا ہے۔ قصرِ مرمریں (وہائٹ ہائوس) کی ایک ترجمان محترمہ ایڈرین واٹسن نے کہا کہ کینیڈین وزیراعظم جسٹن ٹروڈو کی جانب سے لگائے گئے الزامات پر گہری تشویش ہے اور ہم اپنے کینیڈین شراکت داروں کے ساتھ رابطے میں ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ تفتیش کا آگے بڑھنا بہت اہم ہے اور مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جانا چاہیے۔ واشنگٹن کے صحافتی حلقوں کے مطابق امریکہ دِلّی سے بھی رابطے میں ہے اور قتل کی تحقیقات میں کینیڈا سے تعاون پر زور دے رہا ہے۔ کینیڈا کے سرکاری ذرائع کا کہنا ہے کہ سکھ شہری کے قتل سے ہندوستان کے ممکنہ تعلق پر کینیڈا کی خفیہ ایجنسیوں نے امریکی اداروں کے ساتھ مل کر کام کیا ہے۔
کینیڈا کی وزیرخارجہ نے اپنے برطانوی ہم منصب جیمز کلیورلی اور آسٹریلوی وزیرخارجہ کو اس بارے میں تفصیل سے آگاہ کیا۔ اس کی وجہ غالباً یہ ہے کہ کینیڈا کی طرح ان دونوں ملکوں میں بھی سکھ آبادی خاصی بڑی ہے۔ محترمہ جولی سے گفتگو کے بعد برطانوی وزیرخارجہ نے بی بی سی کو بتایا کہ برطانیہ نے کینیڈا کی باتوں کو بہت سنجیدگی سے لیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ کینیڈا اور ہندوستان دونوں برطانیہ کے قریبی دوست اور دولتِ مشترکہ کے شراکت دار ہیں اور معاملے کی تحقیقات مکمل ہونے کے بعد برطانیہ اپنے لائحہِ عمل کا اعلان کرے گا۔ آسٹریلیا کی وزارتِ خارجہ نے بھی اس معاملے پر ”فکرمندی“ کا اظہار کرتے ہوئے بھارت کو اپنی تشویش سے آگاہ کردیا ہے۔
ریاست پنجاب میں جہاں 59فیصد سکھ آباد ہیں، 1980ء اور 1990ء کے دوران پُرتشدد خالصتان تحریک چل چکی ہے جس میں ہزاروں لوگ مارے گئے، ہندوستان میں خالصتان تحریک عملاً دم توڑ چکی ہے لیکن ادھر کچھ عرصے سے بیرونِ ملک خاص طور سے کینیڈا، برطانیہ اور آسٹریلیا میں مقیم سکھ برادری خاصی سرگرم نظر آرہی ہے۔
ہردیپ سنگھ نجر اس تحریک میں بہت سرگرم تھے۔ آزاد خالصتان تحریک نے بیرونِ ملک سکھوں کی رائے معلوم کرنے کے لیے آن لائن استصواب کا سلسلہ شروع کررکھا ہے اور نجر صاحب ریفرنڈم میں پیش پیش رہتے تھے۔ گائوں بگرا سنگھ پورا، جالندھر کے ہردیپ سنگھ نجر 1997ء میں کینیڈا آگئے تھے جب ان کی عمر صرف 19 سال تھی۔ ان کا دعویٰ تھا کہ کینیڈا آنے کے بعد وہ کبھی بھارت نہیں گئے۔
این آئی اے (قومی تحقیقاتی ایجنسی) کے مطابق نجر کا تعلق علیحدگی پسند تنظیم خالصتان ٹائیگر فورس سے تھا اور 2013ء میں وہ خالصتان ٹائیگر فورس کے سربراہ جگتار سنگھ تارا سے ملنے پاکستان آئے تھے۔ این آئی اے نے الزام عائد کیا کہ آنجہانی نجر کا تعلق کالعدم تنظیم سکھ فار جسٹس سے بھی تھا۔ اسی تنظیم نے کینیڈا اور آسٹریلیا میں خالصتان ریفرنڈم کا اہتمام کیا تھا۔ ایک پجاری کے قتل کی سازش میں بھی وہ مبینہ طور پر ملوث پائے گئے، یہ واردات 2016ء میں ہوئی تھی۔ اس کے علاوہ 2007ء میں پنجاب کے ایک سینما ہال پر ہونے والے بم دھماکے سے بھی انھیں منسلک کیا گیا جس میں 6افراد ہلاک ہوئے۔ ان پر زراعت سے متعلق قوانین کے خلاف کسانوں کی ملک گیر تحریک میں حصہ لینے کا الزام بھی تھا۔ دلچسپ بات کہ یہ قوانین حکومت نے بعد میں خود ہی واپس لے لیے۔ جب 2018ء میں جسٹن ٹروڈو ہندوستان کے دورے پر آئے اور پنجاب کے وزیراعلیٰ کیپٹن امریندر سنگھ نے انھیں کینیڈا میں مقیم جن 10 مطلوب ”دہشت گردوں“ کی فہرست فراہم کی تھی اُن میں جناب نجر کا نام بھی شامل تھا۔
جولائی 2020ء میں بھارت نے ہردیپ سنگھ کو دہشت گرد قرار دے کر اُن کی گرفتاری پر 10 لاکھ روپئے انعام کا اعلان کیا اور ”دہشت گردوں“ سے سہولت کاری کے الزام میں حکومت نے ان کی 11کنال آبائی اراضی ضبط کرلی تھی۔ سرکاری دستاویزات کے مطابق آن لائن ریفرنڈم میں ان کا قائدانہ کردار جائداد کی ضبطی کا سبب بنا۔ ہردیپ سنگھ نجر اپنے خلاف دہشت گردی کے الزام کو سیاسی چال قرار دیتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ ریفرنڈم ایک پُرامن سرگرمی ہے جس پر تشدد یا دہشت گردی کا اطلاق نہیں ہوتا۔ آنجہانی نِجر خود کو مزدور کہتے تھے جو پلمبنگ کرکے روٹی روزی کماتے ہیں۔ کینیڈا کی سکھ برادری انھیں اپنا قائد تسلیم کرتی تھی۔
معلوم نہیں کینیڈا میں خالصتان تحریک کی سرگرمیوں سے ٹروڈو مودی ذاتی تعلقات متاثر ہوئے یا ان دونوں رہنمائوں کے درمیان مخاصمت پلمبر کے دو چھوٹے بچوں کو یتیم کرگئی لیکن جسٹن ٹروڈو اور نریندر مودی کے درمیان کشیدگی برسوں پرانی ہے۔ اتفاق سے ان دونوں نے ایک سال کے وقفے سے اپنے اپنے ملکوں کی قیادت سنبھالی اور ان کے درمیان شدید نظریاتی اختلاف پایا جاتا ہے۔ ٹروڈو آزاد خیال لبرل رہنما ہیں، جبکہ مودی جی کی پشت پر ہندوتوا قوم پرست انتہا پسند۔کینیڈا میں ہندو اور سکھ ووٹروں کی تعداد اگر فیصلہ کن نہیں تو بھی مقامی سطح پر خاصا مؤثر کردار ادا کرتی ہے۔ سکھوں کی اکثریت لبرل و آزاد خیال ہے جو انتخابات میں جناب ٹروڈو کی حامی ہے، جبکہ ہندوتوا سے متاثر طبقہ ان کے قدامت پسند مخالفین کے حق میں ووٹ ڈالتا ہے۔
جناب ٹروڈو کو سفارتی سردمہری کا سامنا اُس وقت ہوا جب وہ 2018ء میں پہلی بار 8 روزہ دورے پر بھارت پہنچے۔ اس سے پہلے اسرائیلی وزیراعظم کی آمد پر مہمان کا استقبال نریندر مودی نے خود کیاتھا، جبکہ جناب ٹروڈو کے استقبال کو ایک وزیرمملکت بھیجے گئے۔ جناب ٹروڈو کی آمد کے تیسرے دن نریندر مودی نے ان سے ”مختصر“ سی ملاقات کی جو دراصل ایک فوٹو سیشن تھا۔ (سلسلہ صفحہ ۷)
حد تو یہ کہ جب کینیڈین وزیراعظم مودی جی کی آبائی ریاست گجرات گئے تب بھی بھارتی وزیراعظم ان سے ملنے نہ آئے۔ دلی کا تضحیک آمیز رویہ کینیڈا کے سکھ علیحدگی پسندوں کے ساتھ مبینہ ہمدردی پر مودی انتظامیہ کا اظہارِ ناراضی تھا۔
حالیہ جی 20 سربراہی اجلاس کے دوران بھی مودی ٹروڈو کشیدگی بہت واضح تھی۔ یہ بات میڈیا پر اب تک گردش کررہی ہے کہ وزیراعظم مودی سے مصافحے کے دوران ٹروڈو صاحب نے اپنا ہاتھ جلدی کھینچ لیا، اور سب سے بڑی بات کہ بھارتی صدر کی جانب سے سربراہانِ حکومت و مملکت کو دیے گئے عشائیے میں جناب ٹروڈو نے شرکت نہیں کی۔ کانفرنس کے خاتمے پر کینیڈین وزیراعظم کو اسی دن وطن واپس روانہ ہونا تھا لیکن طیارے میں خرابی کی وجہ سے انھیں مزید دو دن دہلی رکنا پڑا، یہ سارا وقت انھوں نے اپنے ہوٹل میں گزارا اور بھارتی وزیر تو دور کی بات، کوئی معمولی اہلکار ان کی رسمی مزاج پرسی کو بھی نہ آیا۔ اخباری اطلاعات کے مطابق کچھ منچلوں نے جی20 اجلاس کے موقع پر دہلی میں دیواروں پر آزاد خالصتان کے نعرے لکھ دیے تھے۔ اس نوشتہ دیوار نے بھی مزاجِ یار کی برہمی میں اہم کردار اداکیا۔
یہ تنازع ہے تو خاصا سنگین، اور نجر کے ہندوستانی ایجنٹ کے ہاتھوں قتل کو کچھ کینیڈین اہلکار ریاستی دہشت گردی قرار دے رہے ہیں،کینیڈا کے تینوں معتمد اتحادی امریکہ، برطانیہ اور آسٹریلیا بظاہر کینیڈا کی پشت پر ہیں، لیکن مغربی دنیا کوشش کررہی ہے کہ کینیڈا اور بھارت کے درمیان سفارتی تنازع دوسرے ممالک کے بین الاقوامی تعلقات کو خراب نہ کرے۔ بڑھتی ہوئی معاشی قوت کے ساتھ بھارت کا عالمی بساط ِسیاست پر کردار بہت اہم ہوگیا ہے۔ امریکہ اور یورپ کے لیے بھارت، چین کی پیش قدمی روکنے والا ہراول دستہ ہے۔ افغانستان پر روسی حملے کے وقت صدر ضیاالحق پاکستان کو کمیونسٹ یلغار کے سامنے Front Line Stateکہا کرتے تھے۔ اب مغربی دنیا بھارت کو چین کے امنڈتے سیلاب کے آگے مضبوط بند سمجھتی ہے۔
چنانچہ امریکہ اور یورپی یونین نہیں چاہتے کہ بھارت کینیڈا تنازع چین کے خلاٖف اتحاد کو کمزور کردے۔ امریکہ، برطانیہ اور آسٹریلیا کو قتل کے ان الزامات پر ”گہری تشویش“ ہے، وہ اس تنازعے کے حل اور بھارت کینیڈا کشیدگی کم کرنے کے لیے بے تاب ہیں، لیکن اگر تحقیقات کے نتیجے میں بھارتی دامن و خنجر خود بول پڑے تب بھی ان ممالک کے لیے دہلی کی سرزنش و مذمت ممکن نہیں کہ
انیس ٹھیس نہ لگ جائے آبگینوں کو



[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *