[]
نئی دہلی: لشکر طیبہ (ایل ای ٹی) کے بانی حافظ سعید کے لڑکے کے مقدر پر غیریقینی چھائی ہوئی ہے جسے چند نقاب پوش افراد نے مبینہ طورپر اغوا کرلیا ہے۔ حافظ سعید کے لڑکے کمال الدین سعید کا تعلق آئی ایس آئی کی حمایت یافتہ دہشت گرد تنظیم سے بھی جوڑا جاتا ہے۔
بہرحال ذرائع نے کمال الدین کو نقاب پوش افراد کی جانب سے اغوا کئے جانے کی اطلاع کو مستر دکردیا اور کہا کہ شاید انہیں آئی ایس آئی کی حفاظت میں کسی محفوظ مرکز پر منتقل کیا گیا ہوگا۔ اسی دوران کمال الدین کے اتہ پتہ کے بارے میں افواہوں سے جہادی گروپوں میں بے چینی پھیل گئی ہے۔
حالیہ عرصہ میں لشکر کے ارکان کی سلسلہ وار ہلاکتوں کے سبب افواہوں میں اضافہ ہوگیا ہے۔ کراچی کے گلستان ِ جوہر علاقہ میں ایک ممتاز عالم ِ دین اور لشکر طیبہ کارکن مولانا ضیاء الرحمن کے حالیہ قتل کے بعد ایسی اطلاعات سامنے آئی ہیں کہ آئی ایس آئی کے محفوظ مکانات کو پاکستان میں زائداز 12 دہشت گردوں اور ان کے ہمدردوں کی پناہ گاہوں میں تبدیل کردیا گیا ہے۔
ضیاء الرحمن کو شام کے اوقات میں پارک میں چہل قدمی کے دوران نامعلوم حملہ آوروں نے انتہائی قریب سے کئی گولیاں ماری تھیں۔ اطلاعات سے پتہ چلتا ہے کہ کمال الدین کے بھائی طلحہ کے لئے سیکوریٹی میں اضافہ کردیا گیا ہے۔
طلحہ‘ ہندوستان کے خلاف کارروائیوں کی قیادت کررہے ہیں اور لشکر میں دوسرے بڑے درجہ پر فائز ہیں۔ لاہور میں 2019 میں ان پر قاتلانہ حملہ کیا گیا تھا جس میں محفوظ رہے تھے۔ اس حملہ کو لشکر کے اندر داخلی اختلافات سے جوڑا گیا تھا۔
طلحہ کو اپنے والد کا مقام دیئے جانے اور لشکر کے مالیہ پر کنٹرول نے تنظیم کے قدیم ارکان میں بے چینی پیدا کردی ہے۔ ایک انٹلیجنس عہدیدار نے یہ بات بتائی۔ حافظ سعید کی جانب سے امکانی انتقامی کارروائیوں کا اندیشہ لاحق ہے۔ لشکر میں بڑھتے داخلی اختلافات سے اس کی کارروائیاں انجام دینے کی صلاحیت ختم ہوجانے کا اندیشہ ہے۔
ان اندیشوں کے ازالہ کے لئے آئی ایس آئی متحارب گروہوں کے درمیان مصالحت کے لئے سرگرم طورپر ثالثی کررہی ہے۔ انٹلیجنس ذرائع نے بتایا کہ ہنگامی اقدام کے طورپر انہوں نے پلان بھی وضع کیا ہے جس میں جموں وکشمیر میں ریزسسٹنس فرنٹ کا قیام شامل ہے۔ اس متبادل حکمت عملی کو سرحد پار سے تائید حاصل ہوئی ہے۔