جرمنی میں جسم فروشی: شمالی یورپی ماڈل کے نفاذ کا مطالبہ

[]

جرمنی میں اپوزیشن جماعت سی ایس یو کی خاتون رہنما نے ملک میں جنسی خدمات کی خریداری پر پابندی کا مطالبہ کیا ہے۔ ان کے بقول ’’یورپ کا قحبہ خانہ‘‘ بن چکے جرمنی میں شمالی یورپی ماڈل کے نفاذ کی ضرورت ہے۔

جرمنی میں جسم فروشی: شمالی یورپی ماڈل کے نفاذ کا مطالبہ
جرمنی میں جسم فروشی: شمالی یورپی ماڈل کے نفاذ کا مطالبہ
user

Dw

جرمنی میں اس وقت وفاقی چانسلر اولاف شولس کی قیادت میں سوشل ڈیموکریٹک پارٹی ایس پی ڈی، ماحول پسندوں کی گرین پارٹی اور ترقی پسندوں کی فری ڈیموکریٹک پارٹی یا ایف ڈی پی پر مشتمل ایک مخلوط حکومت اقتدار میں ہے۔ اس کے برعکس قدامت پسندوں کی کرسچن ڈیموکریٹک یونین یا سی ڈی یو اور صوبے باویریا میں اس جماعت کی ہم خیال پارٹی کرسچن سوشل یونین یا سی ایس یو پر مشتمل پارلیمانی دھڑا سب سے بڑی اپوزیشن پارٹی کے طور پر کام کر رہا ہے۔

دونوں یونین جماعتوں کے وفاقی پارلیمان میں مشترکہ حزب کی نائب سربراہ اور سی ایس یو کی خاتون سیاست دان ڈوروتھی بیئر کا کہنا ہے کہ جرمنی میں جسم فروشی کرنے والے لاکھوں انسانوں کی پریشان کن صورت حال کے پیش نظر، جن میں بہت بڑی اکثریت خواتین کی ہے، ضرورت اس امر کی ہے کہ سیکس سروسز کی خریداری پر قانوناﹰ ملک گیر پابندی لگا دی جائے۔

جسم فروشی پر بالواسطہ عملی پابندی

ڈوروتھی بیئر نے سب سے کثیر الاشاعت جرمن روزنامے ‘بِلڈ‘ میں شائع ہونے والے اپنے ایک انٹرویو میں کہا کہ جرمنی میں جسم فروشی اور جنسی خدمات کی خرید و فروخت کے حوالے سے موجودہ ”سوچ اور رویوں کو فوری طور پر بدل دینے‘‘ کی ضرورت ہے۔ کرسچن سوشل یونین کی اس خاتون رہنما کے مطابق یورپی یونین کے اس سب سے زیادہ آبادی اور سب سے بڑی معیشت والے ملک میں رقم دے کر سیکس سروسز کا حصول باقاعدہ طور پر ممنوع قرار دیا جانا چاہیے۔

باویریا سے تعلق رکھنے والی اس قدامت پسند سیاست دان کے الفاظ میں، ”اس طرح جرمنی میں ایک پیشے کے طور پر جسم فروشی بالواسطہ طور پر ممنوع ہو جائے گی اور یہ بات خواتین کی صورت حال بہتر بنانے میں معاون ثابت ہو گی۔‘‘

پورے ملک میں تقریباﹰ ڈھائی لاکھ جسم فروش

بنڈس ٹاگ میں یونین جماعتوں کے مشترکہ پارلیمانی دھڑے کی نائب سربراہ نے کہا کہ تازہ ترین اندازوں کے مطابق پورے جرمنی میں جسم فروش افراد کی تعداد تقریباﹰ ڈھائی لاکھ بنتی ہے، جن کی بہت بڑی اکثریت خواتین پر مشتمل ہے۔

ان چوتھائی ملین کے قریب انسانوں میں سے بہت بڑی تعداد بیرون ملک سے آنے والوں کی ہے اور ان کی تعداد کا بہت معمولی سا حصہ ایسا ہے، جس نے متعلقہ جرمن اداروں کے ہاں خود کو باقاعدہ سیکس ورکرز کے طور پر رجسٹر کروا رکھا ہے۔ ڈوروتھی بیئر نے روزنامہ ‘بِلڈ‘ کو بتایا، ”جرمنی اب نہ صرف یورپ کا قحبہ خانہ بن چکا ہے بلکہ اس کا شمار عالمی سطح پر اب ان ممالک میں بھی ہوتا ہے، جنہیں جنسی مقاصد کے لیے سیاحتی نقطہ نظر سے بہت پرکشش سمجھا جاتا ہے۔‘‘

شمالی یورپی ماڈل کے نفاذ کا مطالبہ

بنڈس ٹاگ کی رکن ڈوروتھی بیئر نے مطالبہ کیا کہ جرمنی میں بھی اب جسم فروشی کے حوالے سے شمالی یورپی ماڈل نافذ کیا جانا چاہیے، مثال کے طور پر ویسے ہی قوانین جیسے سویڈن میں بھی نافذ ہیں۔

اس نارڈِک ماڈل کے تحت جنسی خدمات کی خریداری ایک قابل سزا جرم ہے لیکن اگر ایسا کیا جائے تو سزا سیکس سروسز خریدنے والے کو ملتی ہے، نہ کہ ایسی خدمات مہیا کرنے والے کسی فرد کو۔ سی ایس یو کی اس خاتون رہنما نے اپنے مطالبے کے حق میں دلیل دیتے ہوئے کہا، ”سویڈن کی مثال نے ثابت کر دیا ہے کہ سیکس سروسز خریدنے پر پابندی سے سیکس ورکرز کی تعداد میں واضح کمی ہو جاتی ہے۔‘‘

جرمنی میں جسم فروشی کی قانونی حیثیت

وفاقی جمہوریہ جرمنی میں 2002ء میں اس دور کی سوشل ڈیموکریٹک پارٹی ایس پی ڈی اور ماحول پسندوں کی جماعت پر مشتمل ریڈ گرین حکومت نے جسم فروشی کو باقاعدہ قانون سازی کر کے مکمل طور پر ایک قانونی پیشہ قرار دے دیا تھا۔

اس کے بعد 2017ء میں جرمنی میں اضافی طور پر وہ قانون بھی نافذالعمل ہو گیا تھا، جس کا مقصد جسم فروشی کرنے والے افراد کا تحفظ تھا۔ اس قانون کے تحت جسم فروشی کرنے والے افراد کی قانونی حیثیت اور حقوق مضبوط بنا دیے گئے تھے اور ساتھ ہی وہ جملہ لازمی ضوابط بھی طے کر دیے گئے تھے، جو ایک کاروباری شعبے کے طور پر جسم فروشی کے پیشے کا احاطہ کرتے ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


;



[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *