[]
نئی دہلی: سپریم کورٹ نے انتخابات کے دوران الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں (ای وی ایم) میں استعمال ہونے والے سورس کوڈ کے آڈٹ کی مانگ والی ایک پی آئی ایل کو جمعہ خارج کر دی۔
جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ اور جسٹس جے بی پارڈی والا اور منوج مشرا کی بنچ نے سنیل آہیا کی عرضی کو خارج کرتے ہوئے کہا کہ سافٹ ویئر کے سورس کوڈ کو عام نہیں کیا جا سکتا کیونکہ اس سے ای وی ایم کی ’ہیک‘ (ای وی ایم کے کسی دیگر کے کنٹرول میں جانے) ہو جانے کا خطرہ بڑھ جائے گا۔
بنچ نے کہا، ”ہم اس طرح کے پالیسی معاملے پر درخواست گزار کی طرف سے مانگی گئی ہدایات جاری کرنے کے لیے مائل نہیں ہیں۔ اس عدالت کے سامنے یہ اشارہ دینے کے لئے کوئی حقائق نہیں ہے کہ الیکشن کمیشن اپنے حکم کو پورا کرنے کے لیے مناسب اقدامات نہیں کر رہا ہے۔“
عرضی گزار نے کہا کہ یہ صرف ای وی ایم کے سورس کوڈ کے آڈٹ سے متعلق عرضی ہے۔ بنچ نے درخواست گزار سے پوچھا کہ اس میں شک کرنے کے کیا حقائق ہیں؟
اس پر سنیل نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے کسی خاص معیار پر عمل نہیں کیا ہے۔ اس نے کوئی معیارکا انکشاف نہیں کیا ہے۔ کوئی بھی آڈٹ تسلیم شدہ معیارات کے مطابق ہونا چاہیے۔ انہوں نے دلیل دی کہ ذریعہ ای وی ایم کا دماغ ہے اور یہ مسئلہ جمہوریت کے وجود سے جڑا ہوا ہے۔
بنچ نے کہا کہ وہ جانتا ہے کہ سورس کوڈ کیا ہے کیونکہ جب کوئی درخواست سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر اپ لوڈ کی جاتی ہے تو اسے سیکورٹی آڈٹ سے گزرنا پڑتا ہے۔
پی آئی ایل ایک مخصوص معیار”آئی ای ای ای 1028‘ کو لاگو کرتے ہوئے ای وی ایم کے سورس کوڈ کا آزادانہ آڈٹ کا مطالبہ کیا گیاہے۔ ساتھ ہی مطالبہ کیا کہ سورس کا آزادانہ آڈٹ کرایا جائے اور آڈٹ رپورٹ کو پبلک کیا جائے۔ بنچ نے کہا کہ عرضی 2019 کے عام انتخابات سے پہلے اور دوبارہ اپریل 2019 میں دائر کی گئی تھی۔
سپریم کورٹ نے تب کہا تھا کہ وہ عام انتخابات کے پس منظر میں پی آئی ایل میں اٹھائے گئے مسائل پر غور نہیں کر سکتی ہے۔ عدالت نے درخواست گزار کو آزادی دی گئی کہ وہ نئے سرے سے درخواست کریں۔
اس کے بعد سنیل نے 2020 میں سپریم کورٹ کے سامنے ایک اور پی آئی ایل دائر کی تھی۔ اس کے بعد انہیں الیکشن کمیشن میں اپنی نمائندگی کرنے کی اجازت دی گئی۔ درخواست گزار نے عدالت عظمیٰ کو بتایا کہ چونکہ الیکشن کمیشن نے ان کی تین نمائندگیوں کا جواب نہیں دیا، اس لیے وہ دوبارہ عدالت سے رجوع کرنے پر مجبور ہوئے۔