سقوط حیدرآباد : اے فِگارِ دل بداماں السلام

[]

سید توفیق عبید سبیلی

سقوط حیدرآباد ایک دلخراش اور اندوہناک داستان ہے ۔ملک کی سب سے مالدار اور خوشحال ریاست جو محض مسلم حکمرانی کی وجہ سے جانی جاتی تھی جہاں رعایا پرور،دور اندیش خاندان حکمراں تھے ،جس کو ایک عجیب وغریب انداز میں انڈین یونین میں شامل کیا گیا ،جس کے احوال کو بیان کرتے ہوئے اس وقت کے ایک اخبار نے لکھا تھا ،ہندوستان پر حملہ کرنے پہنچا ہندوستان ۔فوج کشی اور خونین فسادات نے اس خوشحال ریاست کو بدحال بنادیا ،مزید ستم یہ کیا گیا کہ اس کے تین حصہ کرکے اس کی خوبصورتی کو گہن لگا گیا ۔خدا جانے کیا بیر تھا اس وقت کے حکمرانوں کواس ریاست کو اس طریقے سے شامل کیا گیا ۔ستمبر کا مہینہ جس کو کچھ لوگ ستم گر کا مہینہ کہتے ہیں ،ریاست حیدرآباد کے لئے واقعی ستمگر ثابت ہوا، او رلاکھوں مسلمانوں کی نسل کشی کی گئی ،وہ ایک کربناک داستان ظلم ہے جس کی یادیں ابھی تک ذہنوں سے محو نہیں ہو پائے ہیں،اس پر مزید نمک پاشی کیلئے ہر سال ننگ وطن لوگ یوم انضمام اور یوم نجات مناتے ہیں ،جب ایک ریاست کو ایک ملک کی طرح فتح کیا گیا ۔جب کہ اسی ریاست کے حکمران نے جو بعد میں راج پرمکھ بنادئے گئے تھے ملک سے محبت کا وہ نمونہ پیش کیا کہ آج تک کی تاریخ میں کسی بڑے سے بڑے دیش بھکت نے خواب میں بھی وطن عزیز کی ویسی خدمت کا نہیں سونچا ۔۱۹۶۵؁ء کی جنگ میں ۵۰۰۰ کیلو سونا اس وقت کے وزیر اعظم لال بہادر شاستری کے حوالے کیا تا کہ ملک اپنی حفاظت کرسکے ۔آج کے لالچی اور مفاد پرست حکمرانوں کی طرح جو ملکی خزانوں کو لوٹ کر غیر ملکی بنکوں میں بے نامی اکاؤنٹس میں جمع کرتے ہیں اور ملک کے عوام اپنے خون پسینے کی کمائی ان کے ہاتھوں لٹتا دیکھ کر خون کے گھونٹ پینے پر مجبور ہیں ۔ریاست حیدرآباد فرخندہ بنیاد جس کی ایک طویل اور روشن تاریخ رہی ہے ،اس شہر کے بانی صوفی منش اور خدا ترس بادشاہ سلطان محمد قلی قطب شاہ جس کو اہل بیت سے بڑی عقیدت تھی اس نے حضرت علی ؓ کے لقب حیدر سے اس شہر کو منسوب کرتے ہوئے اس کانام حیدرآباد رکھا اور جب اس شہر کی بنیاد رکھی تو سب سے پہلے اس نے اللہ کے گھر کی بنیاد رکھی اور سب کو یہ سبق دیا کہ اپنے پیدا کرنیوالے کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے اور اس کی یہ دعا زبان زد خاص وعام رہی کہ میرا شہر لوگاں سو معمور کر‘ پھر کیا تھا رب نے اس بندے کی دعا ایسے قبول کی کہ اب تک یہ شہر اپنے حجم اور طول وعرض میں بڑھتا ہی جارہا ہے۔اور ملک کا چوتھا سب سے بڑی آبادی والا شہر بن گیا ہے ۔ خدا کرے یہ شہر یوں ہی آباد وشاداب رہے اور دشمنان دین ووطن کی بدنگاہی سے محفوظ رہے ۔قطب شاہوں نے اپنے دور حکومت میں اس شہر کو ہر طرح ترقی دی اور ملک کے کونے کونے میں اس کی شہرت کو عام کیا ،لوگ آتے گئے شہر بستا گیا جیسے فانی بدایونی نے کہا ؎
بستی بسنا کھیل نہیں بستے بستے بستی ہے
یہ شہر بستے بستے بس گیا اور اس کی محبت اور آب وہوا لوگوں کو ایسی راس آئی کہ جو یہاں آیا یہیں کا ہوکر رہ گیا ،اس کے بعد لوگوں کی آمد ہوتی رہی اور حکومتیں بدلتی رہیں ،آخر میں آصفجاہی سلطنت کا دور رہا جس نے اس شہر کو پورے ملک بلکہ دنیا بھر میں مشہورکیا اس کے حکمرانوں نے اپنے اپنے دور میں اپنے ذوق کے اعتبار سے ترقی دی ۔عوامی سہولیات کی فراہمی ان کا اولین مطمح نظر تھا ،یہی وجہ تھی کہ وہ اپنی رعایا میں انتہائی مقبول تھے ۔لوگ ان کو بادشاہ سلامت یا راجہ مہاراجا کے بجائے حضور نظام ،اعلیٰ حضرت ،نظام سرکار کے نام سے پکارتے تھے ۔اور ان کے کام بھی ویسے ہی تھے کہ آج تک شہریان حیدرآباد اس سے فائدہ اٹھا رہے ہیں ۔اب تک اس سے شہر کے لوگ مستغنی نہیں ہوسکے ۔اب بھی اگر کوئی متعصب اس کا یقین نہ کرے تو اس کی عقل کا ماتم ہی کیا جاسکتا ہے ۔ان حکمرانوں کی دوراندیشی اور رعایا پروری کا نتیجہ ہے کہ یہ شہر آج بھی پوری دنیا میں امن وامان کے اعتبار سے ایک تا ریخی حیثیت رکھتا ہے ۔ان کی تعلیمی اور رفاہی خدمات کا کوئی جواب نہیں ہے ۔ریاست اور ملک کی جو خدمات انہوں نے کی ہے اس سے کوئی عقل کا اندھا ہی انکار کرسکتا ہے ۔اس ریاست کو رشک عالم بنایا اور اس کا شمار اُس وقت کی دنیا میں ترقی یافتہ اورامیر ترین ریاستوں میں ہوتا تھا ۔جس طرح آج حکومتیں سنگاپور اور ہانگ کانگ کی مثال دیتی ہیں اور اپنے شہروں کو ویسا بنانے کا اعلان کرتی ہیں ۔سو سال قبل ملک اور برٹش راج کی بہت ساری ریاستوں میں حیدرآباد کی مثال دیجاتی تھی ۔مشہور زمانہ واقعہ ہے کہ اس وقت شہر کی صفائی کے لئے دنیا کی مہنگی ترین گاڑی رولس رائس کا استعمال کیا گیا تھا جس سے اس کمپنی کی بڑی سبکی ہوئی تھی ،آج بھی بطور شہادت وہ گاڑی چومحلہ پیالس میں موجود ہے ۔جس کو سیاح روزانہ دیکھنے آتے ہیں ۔اس دور میں جب کہ ملک کا بڑا حصہ بنیادی سہولتوں سے بھی
نا آشنا تھا ،ریاست حیدرآباد میں تعلیم ،صحت،ریلوے،الکٹریسٹی ،بینک،ٹرانسپورٹ ،عدالت ،غرضیکہ عوامی ضرورت کی ہر چیز اتنی فراوانی سے میسر تھی کہ لوگ کھنچے چلے آتے تھے ۔ملک کی اس وقت کی ساری ریاستوں میں ایک مثال تھی ۔کیونکہ یہاں کے حکمرانوں نے اس کو اس طرح ترقیات سے مالامال کردیا تھا کہ جس کا تصور اسوقت کی ملکی ریاستوں اور رجواڑوں میں کہیں نہیں تھا ۔ہر خاص وعام کے لئے تعلیم مفت فراہم کی گئی تھی۔ابتدائی ،تحتانوی ،فوقانوی سے لیکر طب وانجینرنگ ،سائنس وٹکنالوجی ،وکالت وسیاست تک اعلیٰ تعلیم کے ادارے قائم کئے۔ آج بھی وہ ادارے اور اس کی دلکش عمارتیں اپنے بانیوں کو خراج عقیدت پیش کررہی ہیں ،اور ہزاروں طلباء اس سے مستفید ہورہے ہیں ۔ اور مشہور زمانہ جامعہ عثمانیہ کا قیام عمل میں لایا گیا تاکہ ہر طرح کی اعلی ٰ تعلیم یہا ں مہیا ہوسکے ۔اور چونکہ یہاں کی بول چال اردو زبان میں تھی اس لئے سارے علوم وفنون کو اردو زبان میں منتقل کرکے ایک حیرت انگیز کارنامہ انجام دیا گیا اور پھر یہاں کی کتابوں کو عربی زبان میں منتقل کرنے کے لئے دارالترجمہ اور دائرۃ المعارف جیسے زبردست اداروں کا قیام ہوا ۔اور جو لوگ یہاں کی تعلیم سے فارغ ہوکر مزید اعلی ٰتعلیم کے لئے بیرون ملکوں کو جانا چاہتے تو ان کو حکومت اپنی امداد (اسکالرشپ) پر بھیجا کرتی تھی ۔ملک کی کئی نامور شخصیتوں نے جن میں بلبل ہند سروجنی نائیڈواور فخر دکن ڈاکٹر حمید اللہ ؒ جیسی نابغہ ٔ روزگار شخصیتیں شامل ہیں، نظام حیدرآباد کے مالی تعاون سے اس درجہ تک پہنچیں ۔عصری تعلیم کے ساتھ مذہبی تعلیم کے لئے بھی ادارے قائم تھے ۔ملک کی قدیم وعظیم جامعہ اور چہاردانگ عالم میں مسلّم یونیورسٹی جامعہ نظامیہ کا قیام بھی اسی حسین دور کی یادگار ہے ۔ اپنی ریاست کے علاوہ جس نے بھی مدد کی امید سے درخواست کی ہر ایک کو بھرپور تعاون کیا ۔کوئی مذہبی بھید بھاؤ روا نہیں تھا ۔جس طرح مذہبی منافرت آج ملک کی پہچان بن گئی ہے اس کا تصور بھی نہیں تھا اسکی زندہ شہادت بنارس ہندو یونیورسٹی کو دیا جانیوالا وہ بیش بہا عطیہ ہے جو نظام دکن نے بلا کسی تعصب کے حوالے کیا تھا ۔چونکہ ان کے نزدیک تعلیم کی اہمیت تھی ،وہ جانتے تھے کہ تعلیم سے ہی ہر طرح کا جہالت کا خاتمہ ہوسکتا ہے ۔موجودہ حکمرانوں کا چونکہ تعلیم سے کوئی رشتہ نہیں ہے ،اور ان کے نزدیک جہالت ہی ان کی شاہ کلید ہے ۔عوام کو جتنا تعلیم سے دور رکھیں گے اتنا ہی ان کی حکومت مستحکم رہے گی۔ سرکاری تعلیمی اداروں کی زبوںحالی آج ہر آنکھ کو رلادینے والی ہے کئی جگہوں پر اسکولوں کو بند کردیا گیا ۔ (سلسلہ صفحہ ۷)
نظام دور حکومت کے اسکول ابھی بھی پوری آن بان شان سے عوام اور حکمران دونوں کو دعوت نظارہ دے رہی ہیں کہ اگر حکمران رعایا پرور ہو تو اس کی بنائی ہوئی عمارتیں بھی بعد والوں کو اس کی عظمت بتا تی ہیں ۔محبوبیہ اسکول ہو یا عالیہ کالج ،عثمانیہ یونیورسٹی کی وہ دلکش عمارت جس کی مضبوطی اور دلکشی کو امتداد زمانہ نے متاٰثر نہیں کیا ۔ہوا اور روشنی کا ایسا دلکش سنگم تھا کہ بلا کسی مصنوعی لائٹ اور پنکھے کہ ہوا اور روشنی پوری عمارت میں پہنچتی تھیں ۔آج بھی اگر کوئی دیکھنا چاہے تو بلا مبالغہ جاکر دیکھ سکتا ہے ۔اگر اس کی آنکھیں اندھ بھکتی سے پاک ہونگی تو یقینا اس کو نظر آئے گا وہ حکمراں بھی کیا حکمراں تھے ۔اور ان کی حکومت عوام کے لئے کتنی راحت رساں تھی ۔آج حکومتیں تعلیم کی مد میں جو خرچ کررہی ہیں اس سے کئی گنا زیادہ اس وقت نظام حکومت میں خرچ ہوتا تھا ۔شنید کے ایک کروڑ چالیس لاکھ کے قریب عوام کے لئے سرکاری خزانے سے تقریبا ایک کروڑ روپیہ صرف تعلیم کی مد خرچ ہوتے تھے ۔اسمبلی کی وہ خوبصورت اور دیدہ زیب عمارت جس میں گزشتہ سترسالوں سے اراکین اسمبلی اور اراکین کونسل بیٹھتے ہیں ،جہاں سے اب تک کے سارے حکمرانوں نے حکمرانی کے تقاضے پورے کئے اور بھگوا ذہن کے بہت سارے ممبران بھی اس میں شامل ہیں وہ بھی بڑی شان سے ان عمارتوں میں جاتے ہیں جس کو انہی نظام حکمرانوں نے بنایا ہے ۔علاج ومعالجہ کی مثال پورے ملک میں نہیں تھی ،دواخانہ عثمانیہ پورے ملک کے لئے شفا کا ذریعہ تھا ملک کے کونے کونے سے لوگ علاج کے لئے اس سے رجوع ہوتے جہاں بغیر کسی خرچ کے ان کا ہر طرح کا علاج ہوتا تھا ۔آج بھی وہ سارے مریض جن کے علاج کی کوئی امید نظر نہیں آتی بڑے بڑے کارپویٹ دواخانے بھی یہی مشورہ دیتے ہیں کہ دواخانہ عثمانیہ لے جاؤ۔کسی طرح کا کوئی حادثہ ہوجاتا ہے یا کسی کے پاس کوئی ذریعہ نہیں ہوتا تو لوگ اس کو عثمانیہ دواخانہ جانے کا مشورہ دیتے ہیں ۔ابھی کچھ دن پہلے میرے قریبی عزیز کے علاج کے سلسلے میںبچوں کے علاج کے مشہور دواخانہ نیلوفر جانا ہوا ،وہاں جاکر دل سے دعا نکلی کہ اسوقت حکمران واقعی دل درد مند رکھتے تھے ۔کرناٹک،مہاراشٹرا ، تلنگانہ وآندھرا کے بیشمار بچے جوق در جوق دواخانے سے رجوع ہورہے ہیں اور بلاکسی خرچ کے بہتر ین علاج کی سہولتوں سے فائدہ اٹھارہے ہیں ۔اسی کے قرب میں کینسر ہاسپٹل کی عالیشان عمارت پر نظر پڑی ،معلوم ہوا کہ یہ بھی حضور نظام کی رعایا کے ساتھ کی جانیوالی خیر خواہی کی جیتی جاگتی مثال ہے۔ اور یہ بات بھی معلوم ہوئی کہ اس کے مزید علاج کے لئے اور مریض کی جلد صحتیابی کے لئے وقارآباد میں اننت گری کے پر فضاء مقام پر ایک شفا خانہ بنایا گیا جہاں کی آب وہوا کینسر کے مریضوں کیلئے اکسیر ثابت ہوتی ہے اور مریض تیزی سے روبصحت ہوتے ہیں ۔علاوہ ازیں شہر کے معروف ومشہور دواخانے نمس کا اگر تذکرہ نہ ہوتو ان حکمرانوں کے ساتھ نا انصافی ہوگی ۔جہاں آج بھی امیر وغریب سارے ہی رجوع ہوتے ہیں ۔بلکہ کئی حکمرانوں کو اس میں زیرعلاج دیکھا گیا ،موجودہ چیف منسٹر جب تلنگانہ کے لئے ایجی ٹیشن کررہے تھے اور بھوک ہڑتال کیوجہ سے ان کی طبیعت بگڑ گئی تھی اس وقت ان کو بھی نمس ہاسپٹل میں شریک کیا گیا تھا ۔آگے اور بھی سنتے جائیں اور سر دھنتے جائیں کہ وہ بھی کیا حکمراں تھے ۔دماغی خلل کا شکار لوگوں کی بھی معاشرہ میں اچھی خاصی تعداد پائی جاتی ہے ۔حضور نظام نے ان کے علاج کے لئے بھی ایک مستقل دواخانہ دار المجانین (مینٹل ہاسپٹل ) کے نام سے چنچلگوڑہ جیل کے پاس شروع کیا تھا بعد ازاں اسے نظام اسٹیٹ کے ایک ضلع جالنہ منتقل کیا گیا تھا ۔پھر ریاست کے انضمام کے بعد دوبارہ حیدرآباد میں شروع کیا گیا اور ایرہ گڈہ کے وسیع وعریض اراضی پر اس کو منتقل کیا گیا ۔یہ ہزاروں خاندانوں کے لئے نعمت غیر مترقبہ ہے ۔تپ دق آج بھی ایک جان لیوا بیماری کے طور پر مشہور ہے ۔اس کے مریضوں سے اکثر لوگ کنارہ کشی کرلیتے ہیں ۔اس وقت کے انسانیت کا درد رکھنے والے حکمران میر عثمان علی خان نے اس کے علاج کے لئے مستقل ایک ہاسپٹل شروع کیا جو آج بھی کئی مریضوں کا سہارا بنا ہوا ہے ۔ ہمارا ملک چونکہ شروع سے ہی دیسی جڑی بوٹیوں کے علاج کے لئے مشہور تھا ،مشہور زمانہ حکماء اس ملک میں پیدا ہوئے ۔آیوروید اور طب یونانی کا یہاں بڑا چرچا تھا ،اسی مناسبت سے یہ بات آصف جاہی سلاطین کو ناگوار تھی کہ یہاں اس کا کوئی معقول نظم نہ ہوتا اسی لئے چارمینار کے دامن میں مکہ مسجد کے روبرو ایک شاندار اور دلکش عمارت جو آج بھی شہر کی رونق کو دوبالا کرتی ہے ،نظامیہ جنرل ہاسپٹل بنایا ۔جہاں آج ایک یونانی اور آیوش میڈیکل کالج بھی چل رہے ہیں ،جس سے وہ طریقہ علاج کو ایک نئی زندگی ملی ہوئی ہے ۔ملک کی بہت کم ریاستوں میں ایسا معقول نظم ہے ۔آج سرکاری دواخانوں میں علاج کرانے کے لئے کتنی اذیتوں سے لوگوں کو گزرنا پڑتا ہے سب کو معلوم ہے ۔ڈاکٹر ہے تو دوا نہیں ہے ،دوا ہے معاینہ باہر کرانا ہے۔غرض کہ اتنی سہولیات اور ترقیات کے دور میں حکومت اپنی عوام کو وہ سہولت نہیں دے سکی جو نظام حکومت سو سال قبل مہیا کرتی تھیں ۔آج اگر حکومتیں سو روپیہ عوام کے لئے خرچ کرتی ہیں تو اس کے اعلان کے لئے ہزار روپیہ خرچ کرتی ہے اور وہ سو روپیہ بھی عوام تک نہیں پہنچتے۔درمیان میں ہی غائب
ہوجاتے ہیں ۔اور اکثر ان کے اعلانات عوام کے لئے ایک سراب ثابت ہوتے ہیں ۔حکومتوں میں آنے سے پہلے کئی دلربا وعدے کئے جاتے ہیں ہمارے موجودہ وزیر اعظم نے اپنے پہلے انتخاب میں کہا تھا کہ وہ غریب عوام کے کھاتوں میں پندرہ پندرہ لاکھ روپیہ پہنچائیں گے ۔لیکن وہ ایک فریب تھا جو عوام کو دیا گیا تھا۔چونکہ حکمرانوں کو عوام کا درد نہیں ہے ۔وہ عوام کی بھلائی نہیں سونچتے ،اس کی بڑی وجہ یہ ہوتی ہے کہ ان کا اقتدار صرف چار پانچ سال کے لئے ہوتا ہے تو وہ اپنے اور اپنے مددگاروں کے مفاد کا سونچتے ہیں ۔جیسا کہ ہمارے موجودہ مہان یششوی وزیر اعظم کررہے ہیں ۔پچھلے دو تین سالوں سے موجودہ وزیر اعظم کا یہ خواب تھا کہ ملک آزادی کی پچھترویں سالگرہ میں کوئی غریب بے گھر نہیں رہے گا ،ہر ایک کے پاس پکا مکان ہوگا ۔مگر یہ بھی دیوانے کی ایک بڑ سے زیادہ نہیں ثابت ہوا ۔اوپر سے یہ لوگ ان عظیم انسانیت کا درد رکھنے والوں کو آئینہ دکھانا چاہتے ہیں ۔ان کو کیا پتہ انسانیت کیا ہوتی ہے انسانیت کا درد کیا ہوتا ہے ۔مشہور مثل ہے
بندر کیا جانے ادرک کا سواد۔اور
یہ منھ اور مسور کی دال
اور ریاست تلنگانہ میں ان کی پارٹی کے لوگ اور ان جیسی نفرتی سونچ رکھنے والے اس حکمران کو جس نے اپنی عوام کی راحت کے لئے جو کارہائے نمایاں انجام دئے تھے جس سے آج تک بھی بلا تفریق مذہب وملت لوگ فائدہ اٹھارہے ہیں ۔اس ہردلعزیز ریاست کے خاتمہ کو یوم نجات کے طو رپر مناتے ہیں ،ہم سب اس بات کی کوشش کریں کہ ایسی سونچ رکھنے والوں سے ملک اور عوام کو نجات ملے اورجب ان سے نجات مل جائے تو اس دن کو سارے ملک میں یوم نجات منایا جائے ۔زوال حیدرآباد کے اسباب میں جذبات کو عقل پر غالب کرکے بودے نعروں کے سحر میں مبتلا ہوجانیوالوں اور دولت کے انبار اکھٹا کرنے اور ریاستوں کے دفاع سے غافل رہنے والے حکمرانوں کیلئے حیدرآباد دکن کے انجام سے نشانۂ عبرت ہے ،آج بھی ریاست میں موجود مسلم قیادت کا یہی طرز ہے کہ وہ اپنے عوام کے حقیقی مسائل حل کرنے اور ان کی ترقیات کو راہ دینے کے بجائے جذباتی نعروں کے افیم سے ان کو مدہوش کئے ہوئے ہیں ،کیونکہ ملی وقومی معاملات میں صرف جذبات اور دولت ہی کی نہیں فہم وفراست ،حکمت ومنصوبہ بندی کی شدید ضرورت ہوتی ہے ،ورنہ قومیں غلام بن جا یا کرتی ہیں ۔دلی کے زوال کے بعد حیدرآباد بر صغیر میں مسلم ثقافت اور اد ب کا سب سے بڑا مرکز اور گہوارہ تھا ،سقوط حیدرآباد ایک تہذیب وثقافت جس کی ابتداء دلی سے شروع ہوکر دکن میں بڑی آب وتاب کے ساتھ رونق افروز ہوئی تھی ،آج وہ ماضی کے دردناک تاریخ کا حصہ بن گئی ۔حیدرآباد نہ صرف ایک سلطنت کا اختتام تھا بلکہ یہ ایک تہذیب، تمدن ،مذہبی اقدار ،اور زبان وادب اور شائستگی وثقافت کا حسرت ناک خاتمہ تھا ۔جس کا درد شاعر انقلاب جوش ملیح آبادی کے ان اشعار میں جھلکتا ہے
حیدرآباد اے فگار گل بداماں السلام
السلام اے قصۂ ماضی کے عنواں السلام



[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *