حیدرآباد اور ہم …

[]

حمید عادل

حیدرآباد شہر کے بانی قلی قطب شاہ نے دعا مانگی تھی:
مرا شہر لوگاں سوں معمور کر
رکھیا جیوں تو دریا میں من یا سمیع
’’اے دعاؤں کے سننے والے! میرے شہر کو لوگوں سے آباد کر جیسے تو دریا میں مچھلیوں کو زندہ رکھتا ہے…‘‘
’’دل سے جو آہ نکلتی ہے اثر رکھتی ہے ‘‘کے مصداق قلی قطب شاہ کی دعا ایسی قبول ہوئی کہ آج شہر لوگوں سے اس قدر آباد ہوچکا ہے کہ دریا میں مچھلیاں کم معلوم پڑتی ہیں…شہر حیدرآباد دیکھتے ہی دیکھتے کب ’’ گریٹر حیدرآباد‘‘ بن بیٹھا خود حیدرآبادیوں کو بھی پتا نہ چل سکا…اب تویوں محسوس ہوتا ہے جیسے حیدرآباد کے چاروں طرف بھی حیدرآباد، آباد ہوچکا ہے بلکہ اب تو حیدرآباد پر Slabڈالنے کی نوبت آپہنچی ہے …
کبھی صاف و شفاف پانی والی موسیٰ ندی ٹھاٹھیں مارا کرتی تھی، سنتے ہیں کہ ندی کی دونوں جانب باغ تھے اور یہ منظر دیکھنے لائق ہوا کرتا تھا لیکن وقت کی ستم ظریفی دیکھیے کہ آج وہ خوبصورت ندی گندے نالے میں تبدیل ہوچکی ہے…اس کی صفائی کے لیے حکومت نے کئی بار اعلان کیا، فنڈس بھی مختص کیے لیکن ندی کی گندگی ویسی کی ویسی ہی رہی …جب تک حرص و ہوس سے دل صاف نہ ہوں گے، گندگی بھلا کیسے دور ہوگی؟
حیدرآباد اپنے متعدل موسموں کے لیے ساری دنیا میں مشہور تھا، وہ بھی کیا دن تھے کہ ہر موسم پابند ڈسپلن ہوا کرتا تھا،آج کی طرح موسم گرما کی دیگر موسموں میں بیجا مداخلت نہ تھی…لیکن آج موسم گرما ،ان ڈھیٹ لینڈگرابرس کی طرح ہوگیا ہے جوزندہ لوگوں کی جائیداد توکجا قبرستانوں پر تک قبضہ کر بیٹھے ہیں۔موسم سرما او رموسم برسات میںبھی ایسی غضب کی گرمی پڑتی ہے کہ چمن بیگ جیسا آدمی پریشان ہوکر کلینک کی راہ لینے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ کہیں یہ پسینے کسی خونخوار مرض کی علامت تو نہیں ہیں؟
ایک وقت تھا جب شہر حیدرآباد وقت پر سوتا اور وقت پر جاگ بھی جاتا ،رات نو دس بجے کے بعدکسی کے ہاں جانا معیوب سمجھا جاتا تھا اور آج یہ عالم ہے کہ ایک ڈیڑھ بجے بلکہ کبھی دو ڈھائی بجے بھی دوست احباب اوررشتے دار نہایت بے تکلفی کے ساتھ ایک دوسرے کی گھنٹی بجا دیا کرتے ہیں،اس یقین کے ساتھ کہ دوسری جانب ان کی کال ریسیو کرنے والا بندہ جاگ رہاہے،مزے کی بات یہ ہے کہ انہیںعموماً مایوسی نہیں ہوتی ہے…
شہر حیدرآباد اب وہ شہر نہیں رہا جہاں محض دکنی زبان کا راج ہوا کرتا تھا، آج یہاں ہمہ اقسام کی بولیاں سننے کو مل جاتی ہیں… کبھی کبھی تو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے دکنی لب و لہجہ ملک کے گوشے گوشے سے آنے والے لوگوں کے سیلاب میں گم ہوکر رہ گیا ہے ، کبھی یہ احساس بھی ہوتا ہے جیسے ہم اس شہر کے لیے اجنبی ہیں یا یہ شہر ہمارے لیے اجنبی بن چکا ہے …
کبھی ٹریفک حیدرآباد یا حیدرآبادیوں کے لیے کوئی مسئلہ نہ تھا لیکن آج ہر سوٹریفک جام اور افرا تفری ہے ،کسی راہ گیر میں صبر نہیں اور صابرکوئی راہ گیر نہیں…آج کل شہر کی سڑکیں اس قدر مصروف ہوچکی ہیں کہ کہیں چین سے بیٹھنا تو درکنار کچھ دیر کے لیے کھڑے تک نہیں ہوسکتے اور اگر ہمت کرکے کھڑے بھی ہوجائیں تو کب کوئی اپنی موٹر سائیکل ہماری ٹانگوں میں ٹھونس کر ’’ سوری ‘‘ کہہ کر چلتا بنے ، کہہ نہیں سکتے۔
رات کا وقت تھا، ہم مشکوک حیدرآبادی کے انتظار میں سڑک کی ایک جانب کھڑے تھے۔ فٹ پاتھ پر کھڑے ہونے کے باوجود ہمیںکسی موٹر سائیکل کی آمد پر دائیں جانب ہٹنا پڑتا تو کبھی کسی کارکے آنے سے بائیں جانب ہٹنا پڑتا۔اس طرح ہمارے اِدھر اُدھر ہٹنے پر یا پھر پتا نہیں کس وجہ سے کوئی کم بخت ہم پر فقرہ کس گیا’’ ارے ہٹے ہوئے، بازو ہٹ‘‘ اور ہم ہٹتے ہٹتے وہاں پہنچ گئے جہاں آدمی دکھاوے کی خاطر قرض تک لینا معیوب نہیں سمجھ رہا ہے …جی ہاں! ہماری مراد شادی خانے سے ہے۔
پلک جھپکتے آنے کا وعدہ کرنے والے مشکوک حیدرآبادی ،ہمارے ہزاروں لاکھوں بار پلکیں جھپکانے کے باوجود بھی نہیں آئے تو ہم سڑک پردوڑتی بھاگتی مختلف سواریوں کوگھورنے لگے۔ قریب ہی موجود چوراہے پر ہم نے دیکھاکہ کس طرح سگنل کے رنگ بدلتے ہی مختلف سواریا ں ، شکاری کتوں کا روپ دھار لیا کرتی ہیں اور جو ان کی راہ میں آیا اسے تہس نہس کرنے بلکہ چیر پھاڑ کرنے کا ارادہ رکھتی ہیں۔ جب ان سواریوں کو دیکھ دیکھ کر ہم بور ہوگئے تو سوچا کہ چلو تارے ہی گن لیتے ہیں ،ہم نے آسمان پر نظر دوڑائی تو مطلع ابر آلود تھا۔ دریں اثنا ہماری نظر شادی خانے کے باہر کھڑی بے شمار موٹر سائیکلوں پر پڑی تو ہم نے وقت گزاری کے لیے ان ہی کو گننے کا فیصلہ کرلیا۔ ابھی ہم موٹر سائیکلوں کو گنتے گنتے چھ کے عدد تک پہنچے ہی تھے کہ ہمیں آدھا درجن ہٹے کٹے نوجوانوں نے گھیر لیا۔
’’موٹر سائیکلیں کیوں گن رہا ہے بے؟ ‘‘ایک نہایت مکروہ چہرے والا نوجوان ہمیں دیکھ کر غرایا۔
’’ دیکھیے جناب !ہم سے ادب سے بات کیجیے، ہم ادبی آدمی ہیں۔‘‘ہم نے حیدرآبادی تہذیب کو ملحوظ رکھتے ہوئے بڑی شائستگی سے جواب دیا۔
’’ابے تو ادب ادب کیا کر رہا ہے ، دوں کیا ایک کان کے نیچے ادب سے۔‘‘ ایک عدد ہٹے کٹے نوجوان نے محض ہاتھ اٹھایا توہم بدک کر دوفٹ دور ہٹ گئے۔ ہمارا اس طرح بدکنا تھا کہ آدھا درجن قہقہے فضا میں زہر گھولنے لگے۔
’’ اجو بھائی! میری پلسر گاڑی جو میں نے اپنی ماں کو السر ہونے کے باوجود ضد کرکے خریدی تھی، لگتا ہے اسی ظالم سنگھ نے چرائی ہے۔‘‘اس ٹولی کے ایک نوجوان نے ہمارا بھرپور جائزہ لیتے ہوئے کہا۔
’’ کیا بات کررہے ہیں آپ؟کیا ہم آپ کو موٹر سائیکل چوردکھائی دیتے ہیں ؟ ہمارا چہرہ دیکھیے، کس قدر معصوم ہے۔‘‘ہم نے اپنا چہرہ مستنڈوں کے آگے پیش کردیا۔
’’ ہمیں تو اس معصوم چہرے کے پیچھے ایک خطرناک چور نظر آرہاہے، سچ سچ بتا! تو نے اب تک کتنی موٹر سائیکلیں چرائی ہیں؟‘‘ ایک کالے کلوٹے نوجوان نے ہمارے گریبان پر ہاتھ ڈال دیا۔
’’ہمارا گریبان چھوڑیے بھائی ! ہم نے آج تک موٹر سائیکل یا سائیکل تو کیا کسی کا دل تک نہیں چرایا ہے ، ہم نہایت شریف انسان ہیں۔ ‘‘یہ کہتے کہتے ہماری آنکھوں میں پتا نہیں کہاں سے آنسو آگئے۔
’’ارے اسے جانے دو یار، یہ تو واقعی بڑا معصوم نظر آرہا ہے ، چھوڑ دو اسے۔‘‘ایک نوجوان نے ہماری تائیدمیں نعرہ لگایا۔
’’ ایک بات کان کھول کر سن ! آج کے بعد تو اس شادی خانے کے قریب تو کیا اس سڑک پر بھی نظر آیاتو پھر تیری خیر نہیں ، چل اب یہاں سے فوری پھوٹ لے۔‘‘ مکروہ چہرے والے نوجوان نے تحکمانہ لہجے میں کہا تو ہم نے وہاں سے بے چوں و چراں کھسک جانے ہی میں اپنی عافیت سمجھی…
ہمارے شہر کی سڑکوں کی خاص بات یہ ہے کہ وہ برسات کے موسم میں جھیل کا سا منظر پیش کرتی ہیں، گویا ہمیں یاد دلاتی ہیں کہ کبھی اسے جھیلوں کا شہر کہا جاتا تھا… ستم در ستم یہ کہ گریٹر حیدرآباد کے محکمہ ٔ بلدیہ کا قابل عملہ جگہ جگہ سڑکیں ایسے کھود رہا ہے جیسے اسے کسی قارون کے خزانے کی تلاش ہو۔ گڑھے کھودنے کے بعد مذکورہ محکمے کو گڑھے بھرنے کا اس وقت تک خیال نہیں آتا جب تک کہ اس میں دو چار آدمی گر کر معذور یا پھرکم از کم کوئی ایک بندہ اللہ کو پیارا نہ ہوجائے …
چمن بیگ کو سڑکوں کی خستہ حالی اورگڑھوں سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے ،وہ اپنی رفتار سے کوئی سمجھوتہ نہیں کرتے … موصوف نے ’’ گاڑی والے گاڑی دھیرے ہانک رے ‘‘والی ہماری ساری ہدایات بلکہ دردمندانہ اپیلوں کو ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے ایسے نکال باہر کردیا جیسے دو کان اسی مقصد کے تحت عطاکیے گئے ہوں۔چمن کے ساتھ سفرکا آغاز ہی نہایت دھماکو تھا، جیسے ہی انہوں نے کک ماری، موٹر سائیکل کسی منہ زور گھوڑے کی طرح ایسی ہنہنائی کہ ہماری کھوپڑی ان کی کھوپڑی سے یوںٹکرائی کہ ہمیں اپنی بتیسی حلق میں اترتی ہوئی محسوس ہوئی۔ہم نے اپنے لرزتے دل پربمشکل قابو پاتے ہوئے نہایت دھیمے لہجے میں التجا کی ’’ چمن بیگ! دھیان رکھیں کہ ہم ابھی مرنا نہیں چاہتے!‘‘ ہماری بات سن کر چمن بیگ نے جھوم کر کہا ’’ تم بے فکر رہو! تمہارے پیٹ کا پانی تک ہلنا نہیں دوں گا!‘‘ لیکن ان کا تیقن بھی سیاسی وعدہ ثابت ہوا ، کیونکہ وہ موٹر سائیکل کو نہ صرف برق رفتاری سے دوڑا رہے تھے بلکہ وہ ہمارے علاوہ گہرے سے گہرے گڑھے اور پہاڑ نما اسپیڈ بریکرس کو تک خاطر میں نہیں لارہے تھے اور ہمیں محسوس ہونے لگا تھا جیسے ہم اپنے آخری سفر پر روانہ ہوچکے ہیں۔ہم نے صدائے احتجاج بلند کیا تو وہ شان بے نیازی سے معہ ایک زور دار قہقہہ گنگنا اٹھے ’’ روتے ہوئے آتے ہیں سب ، ہنستا ہوا جو جائے گا ، وہ مقدر کا سکندر جان من کہلائے گا‘‘اور پھرموٹر سائیکل کی رفتار ایسے بڑھا دی جیسے انہوںنے اپنے ساتھ ساتھ ہمیں بھی ’’ مقدر کا سکندر‘‘ بنانے کا حتمی فیصلہ کرلیا ہو۔چمن بار بار بریک لگا کر ہماری قربت کا یوں مزہ لے رہے تھے جیسے سڑک چھاپ بوائے فرینڈس، اپنی اپنی گرل فرینڈس کو پچھلی نشست پر بٹھا کرہر بریک پر ’’ دوریاں نزدیکیاں بنیں‘‘ کے تحت محظوظ ہوا کرتے ہیں۔
چمن بیگ نے برق رفتاری سے دوڑ رہی موٹر سائیکل کواچانک ایسا بریک لگایا کہ ہم اپنی نشست سے اڑ کرتین فٹ گہرے خشک گڑھے کی نذر ہو گئے…ہماری آنکھیں بظاہر کھلی تھیں لیکن ہم انہیں جھپکانے کے موقف میں بالکل نہیں تھے…ہم کچھ کہنے کے تو نہیں البتہ سننے کے موقف میں ضرور تھے، کوئی کہہ رہا تھا کہ ’’ فوری نکالو اس شخص کو ، ورنہ ناحق مارا جائے گا!‘‘تو کوئی کہہ رہا تھا ’’ زندہ بچنے کی امید بہت کم ہے‘‘ کسی نے آواز دی ’’ رسی لاؤ‘‘ تو کوئی کہہ رہا تھا کہ ’’ اب رسی کہاں ملے گی، پاس کی ٹیلر کی دکان سے دھاگاہی لے آو… ‘‘دراصل اس مسخرے نے ہماری صحت کا بھرپورمذاق اڑایا تھا۔
گڑھے کے اطراف جم غفیر اکٹھا ہوچکا تھا لیکن کوئی ہمیں گڑھے سے نکالنے کو تیار نہ تھا،ہر کوئی ویڈیو بنانے پر تلا ہوا تھا تاکہ سوشیل میڈیا پر شیئر کرکے زیادہ سے زیادہ لائکس بٹور سکے…ان نازک حالات میں چمن بیگ ہی تھے جنہوں نے دوستی کا کما حقہ حق ادا کرتے ہوئے ہمیں گڑھے سے نکالااورہمیں چبوترے پر بچھا دیا…اور ہم چبوترے پر پڑے پڑے اُس گڑھے کے بارے میں سوچنے لگے جس سے ہم ابھی ابھی باہر نکلے تھے اور جس میں گرتے ہی اپنی قبر کے تصور سے ہم لرز گئے تھے… کیوںکہ قبر جنت کا باغ ہے تو جہنم کا گڑھا بھی ہے، جس کی یہ منزل آسان اس کی ساری منزلیں آسان… ہمیںان چلتی سانسوں کو غنیمت جاننا ہے، بلاشبہ یہ سانس ہی تومہلت ہے اور کب یہ مہلت ختم ہوجائے، کوئی نہیں جانتا۔بلاشبہ ہر نفس کو موت کا مزہ چکھنا ہے…
۰۰۰٭٭٭۰۰۰



[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *