[]
مہر کے نامہ نگار کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے واحد جلال زادہ نے فرانس، جرمنی اور برطانیہ کے حالیہ اقدام کہ جس میں 18 اکتوبر کے بعد ایران کے خلاف ہتھیاروں کی پابندی جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے، کے بارے میں بتایا کہ یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کے عہدیدار جوزف بورل نے کہا ہے ہے کہ ان تینوں یورپی ممالک نے انہیں ایک خط لکھا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران کی جانب سے JCPOA کی ذمہ داریوں کی عدم تعمیل کی وجہ سے وہ اپنی بعض ذمہ داریوں کو پورا نہیں کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ معاملے کا بنیادی نکتہ یہ ہے کہ معاہدے میں کہا گیا تھا کہ ایران پر روایتی ہتھیاروں کی پابندی JCPOA کی پانچویں سالگرہ کے موقع پر اٹھا لی جائے گی جو کہ 2020 میں JCPOA کی پانچویں سالگرہ تھی۔ اس کے ساتھ ہی خود مغربی ممالک نے ایران پر ہتھیاروں کی پابندیوں کو جاری رکھنے کے لیے تین سال کے ٹائم فریم کا اضافہ کیا، یعنی ان کے الفاظ یہ تھے کہ وہ 2023 میں ایران پر سے ہتھیاروں کی پابندیاں اٹھا لیں گے، جو اس سال 19 اکتوبر کو ختم ہو جائے گی۔
ایران کی خارجہ پالیسی کمیشن کے سربراہ نے کہا کہ آخر کار یہ فیصلہ کیا گیا کہ یہ ممالک 2023 میں ان پابندیوں کو اٹھا لیں گے، لیکن ان کے حالیہ بیان میں کہا گیا کہ وہ ایران کے روایتی ہتھیاروں پر عائد پابندیوں کو ختم نہیں کرنا چاہتے۔
ان کا دعوی یہ ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران JCPOA میں اپنے وعدوں کو پورا نہیں کر رہا ہے اور بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی کے ساتھ کیے گئے معاہدوں کا پابند نہیں ہے۔
جلال زادہ نے مزید کہا کہ ایران پر کوئی نئی پابندیاں عائد نہیں کی گئی ہیں، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ JCPOA کے مطابق، ان ممالک کو اس سال کی 19 اکتوبر کو ہتھیاروں پر عائد پابندیاں اٹھانی تھیں لیکن انہوں نے پابندی جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے۔
جلال زادہ نے کہا کہ ان ممالک کے بیان میں اس وقت ایران کے لئے کئی پیغامات ہیں۔ سب سے پہلے تو یورپ اور خاص طور پر برطانیہ، فرانس اور جرمنی اپنے آپ کو پچھلے سال کے فسادات میں شکست خوردہ سمجھتے ہیں۔ مزید واضح طور پر کہا جائے تو گزشتہ سال ایران میں بدامنی کے منصوبے کے تین فریق تھے جن میں امریکہ، انگلینڈ، فرانس اور جرمنی اور خطے کے کئی عرب ممالک شامل تھے۔
ان واقعات کو ایک سال گزر چکا ہے اور دنیا نے دیکھا کہ ہم نے خلیج فارس کے ممالک کے ساتھ کشیدگی کم کی ہے اور اب ہم اپنے تعلقات کو از سر نو استوار کر رہے ہیں اور اپنی خارجہ پالیسی میں ان ممالک کے ساتھ تعلقات کی ایک نئی تعریف پر عمل پیرا ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اس کے علاوہ، امریکیوں نے ایران کے ساتھ اپنے قیدیوں کے تبادلے اور جنوبی کوریا میں ہمارے منجمد ریلیز کرنے کے لیے قدم بڑھایا، اور وہ یہ کام بعض ممالک کی ثالثی سے کر رہے ہیں، جو کہ اب پایہ تکمیل کو پہنچ رہا ہے۔
اس دوران یورپ نے سب سے زیادہ قیمت چکائی اور نقصان اٹھایا، کیونکہ ہم نے بعض یورپی ممالک میں ایرانی سفارت خانوں اور قونصل خانوں پر حملوں جیسے واقعات کا مشاہدہ کیا اور ان ممالک کے صدور، پارلیمنٹ اور بعض وزراء نے منافقین اور مخالفین سے ملاقاتیں بھی کیں۔
اب ان واقعات کو ایک سال گزر چکا ہے اور باوجود اس کے کہ انہوں نے ان واقعات کی ایک برسی کے موقع پر ہمارے ملک کے لیے تلخ واقعات پیدا کرنے کی بہت کوشش کی، لیکن اب وہ دیکھتے ہیں کہ اس الاقوامی کھیل میں ان کے ہاتھ خالی ہیں اور وہ ہار گئے۔
اسلامی پارلیمنٹ کے قومی سلامتی اور خارجہ پالیسی کمیشن کے سربراہ نے کہا کہ میں اس بیان کو یورپ کا شکست خوردہ اقدام سمجھتا ہوں۔
کیونکہ اس اقدام سے وہ اپنے بیرون اور اندرون ملک عناصر کو پیغام دینا چاہتے ہیں۔ ہم تمہارے لئے اتنا کر سکتے ہیں کہ جے سی پی او اے کے بارے میں بیان دے دیں۔
انہوں نے کہا کہ میری رائے میں یہ بیان غیر اہم ہے، کیونکہ یورپ نے ایران سے یہ پابندیاں کبھی نہیں اٹھائی نہیں تھیں جنہیں وہ اب بڑھانا چاہتا ہے۔
جلال زادہ نے مزید کہا کہ دوسری طرف اس اقدام سے اسلامی جمہوریہ ایران کے ہتھیاروں کی ترقی پر کوئی اثر نہیں پڑے گا کیونکہ ہمارے یورپ کے ساتھ کئی سالوں سے ہتھیاروں کے تعلقات نہیں ہیں۔ اس کے علاوہ، اس علاقے میں امریکہ کے ساتھ ہمارا کوئی تعلق نہیں ہے اور وہ ایران سے ہتھیاروں کی پابندی نہ بھی اٹھائے تو اس کا ہمارے ہتھیاروں کی تنصیبات اور جنگی ساز و سامان پر کوئی اثر نہیں پڑے گا کیونکہ ان میں سے زیادہ تر مقامی طور پر تیار کیے گئے ہیں۔
در اصل وہ صرف اپنے چند گماشتوں کو مصنوعی سانس دینا چاہتے تھے
جلال زادہ نے کہا کہ انہوں نے ایران کے خلاف یہ پابندیاں کئی سالوں تک جاری رکھی لیکن اسلامی جمہوریہ ایران نے ہتھیارسازی میں حیرت انگیز ترقی کی ہے۔
دفاعی میدان میں اسلامی جمہوریہ ایران نے اب جو ترقی حاصل کی ہے وہ اسلامی جمہوریہ ایران کی کامیابیوں میں سے ایک ہے اور ایران کے لئے مغربیوں کے یہ اقدامات بالکل بھی اہمیت نہیں رکھتے ہیں۔