پیغمبراسلام کے عفو و درگزر کی وجہ سے لوگ دینی تعلیمات قبول کرنے پر تیار ہوگئے، حجت الاسلام علم الھدی

[]

مہر خبررساں ایجنسی، گروہ دین و عقیدہ: 28 صفر المظفر کو پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رحلت کا دن ہے۔ اللہ تعالی نے قرآن مجید میں آنحضرت کی متعدد صفات کا تذکرہ کیا ہے جن میں حسن خلق، عفو و درگذر، مہربانی، مشاورت، احساس ذمہ داری، امانت داری، صداقت اور دیگر صفات عالیہ شامل ہیں۔

آنحضرت کے اجتماعی روابط اور دوسرے کے ساتھ سلوک پر روشنی ڈالنے کے لئے ہم نے اعلی تعلیمی مرکز قاسم بن الحسن کے سربراہ حجت الاسلام و المسلمین سید محمد باقر علم الھدی سے گفتگو کی ہے جس کو قارئین کی خدمت میں پیش کیا جارہا ہے۔

مہر نیوز کے نمائندے سے بات کرتے ہوئے حجت الاسلام علم الھدی نے کہا کہ ہجرت کے بعد پیغمبر اسلام کے اجتماعی روابط کا ایک اعلی نمونہ آپ کی جانب سے حکومت اسلامی کی تشکیل ہے جس کا مقصد معاشرے میں فلاح و بہبود اور قانون کی حکمرانی کو یقینی بنانا تھا۔

انہوں نے کہا کہ جب انسانی زندگی میں نظم و ضبط آتا ہے تو سعادت نصیب ہوتی ہے لہذا عدالت اور حق کے پرچار کے نعرے کے ساتھ یہ مہم شروع کی گئی تاکہ انسانی اعلی اقدار کو احیاء کرتے ہوئے انسانوں کو ظلمت اور تاریکی سے نکال کر نور کی سمت دعوت دی جاسکے۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ اس تحریک کے علمبردار تھے۔ حجت الاسلام علم الھدی نے مزید کہا کہ رسول اکرم (ص) کی اجتماعی سیرت میں انسانی کردار اور رفتار کو منظم کرنا اہم اصول کی حیثیت رکھتا ہے کیونکہ اسلام آخری دین اور رسول اکرم آخری نبی کے طور پر اجتماعی روابط میں نہایت اہم کردار کے حامل ہیں۔ آپ نے اجتماعی روابط کو اخلاقی بنیادوں پر استوار کیا۔

انہوں نے کہا کہ اخلاق دینی کے اندر ایثار، عفو و درگذشت اور دوسروں کے حقوق وغیرہ شامل ہیں۔ آنحضرت نے اس حوالے سے کرامت اور عزت کے ہمراہ زندگی گزاری اور اپنے فرائض کو بخوبی انجام دیا۔

حجت الاسلام علم الھدی نے قرآن کریم کی آیات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر پیغمبر اکرم سخت رویہ اپناتے تو لوگ ان کے اردگرد جمع ہونے کے بجائے دور ہوجاتے بنابراین آپ نے عفو و درگذشت کو معاشرتی اور اجتماعی اصول میں اہم حیثیت دی۔ اسی لئے تاریخ کے مطابق آپ نے متعدد مواقع پر اپنے حق سے ہاتھ اٹھالیا اور اس دور کے جاہل افراد کو جو آپ کی توہین کرتے تھے، معاف کیا۔ آپ کا یہ رویہ اور عفو و درگذر باعث بنا کہ لوگ آپ کے حسن اخلاق کے گرویدہ ہوگئے اور اسلام کے احکام کے سامنے سرتسلیم خم کیا۔

انہوں نے ضرورت مند اور محتاج لوگوں کی مشکلات حل کرنے کو پیغمبر اکرم کی اجتماعی سیرت کے اصولوں میں سے قرار دیا اور کہا کہ آنحضرت کے دور میں لوگ مشکلات میں زندگی گزارتے تھے۔ لوگ آپ کے اچھے اخلاق کی وجہ سے آپ کے ارد گرد جمع ہوتے تھے۔

انہوں نے کہا کہ تاریخ کے مطابق عدی بن حاتم آپ کے دشمنوں میں شمار ہوتے تھے۔ انہوں نے مدینہ جاکر پیغمبر اکرم کو قریب سے دیکھنے کا فیصلہ کیا۔ پیغمبر اکرم نے ان کو اپنے گھر پر دعوت دی۔ راستے میں ایک بوڑھی عورت سے ملاقات ہوئی۔ وہ عورت بھی پیغمبر اسلام کے پاس آئی اور اپنی مشکلات پیش کیں۔ آنحضرت نے اس عورت سے کچھ دیر بات چیت کی۔ عدی کہتا ہے کہ جب میں نے یہ منظر دیکھا تو اپنے آپ سے کہا کہ یہ کسی بادشاہ کا طرز زندگی نہیں ہے۔ بادشاہان دوسروں کو حکم دیتے ہیں۔ میں نے دیکھا کہ پیغمبر اکرم بنفس نفیس اس عورت کی مشکل حل کی۔ اس سے میرے دل میں ایک امید کی کرن روشن ہوگئی۔ میرے تصور کے برعکس رسول اکرم کا گھر بہت سادہ تھا۔ کونے میں کھجور سے بنی ہوئی چٹائی تھی جس پر مجھے بٹھایا اور رسول اکرم خود زمین پر بیٹھ گئے اور میرے ساتھ احترام کے ساتھ پیش آیا۔ اس منظر کو دیکھنے کے بعد مجھ پر حجت پوری ہوچکی تھی۔ کسی اور معجزے یا دلیل کی ضرورت باقی نہ رہی اور اس طرح میں نے ایمان لایا۔

حجت الاسلام علم الھدی نے کہا کہ پیغمبر اکرم نے عدی کے ساتھ یہ رویہ اپنا کر ذلت کا شکار ایک انسان کو عزت دی۔ آپ نے اپنے دشمن کو گھر دعوت دے کر احترام کے ساتھ سلوک کیا اور اس کو انسانی اور دینی کرامت کا مظاہرہ کیا۔

رسول اکرم (ص) کی سیرت کا ایک اور نمونہ آپ کی عدالت خواہی ہے۔ آپ فرماتے تھے کہ مجھے عدالت کے قیام کے لئے مبعوث کیا گیا ہے۔ جس معاشرے میں اجتماعی سطح پر عدالت رائج ہو اس میں لوگ دین اور اس کی تعلیمات کی طرف رغب ہوتے ہیں۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ نے اس مسئلے کو بہت زیادہ اہمیت دی چنانچہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں کہ جب رسول اکرم لوگوں کے سامنے تقریر کرتے تھے تو مجمع پر نظر کرنے میں بھی عدالت سے کام لیتے تھے اور پورے مجمع پر یکساں نگاہ کرتے تھے۔

حجت الاسلام علم الھدی نے کہا کہ آنحضرت کی زندگی محبت اور الفت کا مجموعہ تھی چنانچہ قرآن میں ارشاد باری تعالی ہوتا ہے کہ اے رسول اگر تم سخت گیر ہوتے تو یہ لوگ تمہارے ارد گرد سے دور ہوجاتے۔ روایت کے مطابق ایک مرتبہ تند مزاج عرب آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور سخت الفاظ ادا کئے۔ آپ نے اپنے پاس موجود رقم کو اس دیہاتی عرب کے حوالے کردیا لیکن وہ راضی نہ ہوا اور اپنی ضد پر اڑ گیا۔ دیہاتی کے اس رویے سے آپ کے اصحاب ناراض ہوگئے اور اس کو ادب سکھانے کے لئے اپنی جگہ سے کھڑے ہوئے تو آپ نے فرمایا کہ اگر مزید رقم کی ضرورت ہے تو میرے ساتھ گھر چلو تاکہ تیری ضرورت کے مطابق رقم دوں۔

دیہاتی آپ کے ساتھ گھر کی طرف روانہ ہوا۔ جب گھر پہنچ کر اس نے آپ کی سادہ زیستی کا مشاہدہ کیا تو بہت متاثر ہوا اور آپ کا شکریہ ادا کیا۔ دیہاتی نے واپس آکر اصحاب کے سامنے آنحضرت کا دوبارہ شکریہ ادا کیا اور اپنے اپنی بدسلوکی پر معافی طلب کی۔ اس موقع پر پیغمبر اکرم (ص) نے اصحاب سے فرمایا کہ اگر میں آپ کو نہ روکتا تو اس دیہاتی پر حملہ کرتے اور ممکن تھا کہ قتل ہوجاتا اور اس دنیا سے مشرک کی موت مرجاتا۔ میں اس کے ساتھ احترام کے ساتھ سلوک کیا تو مسلمان ہوا اور میری امت میں ایک شخص کا اضافہ ہوا اور تمہارا ہاتھ بھی ایک انسان کے خون سے آلودہ ہونے سے بچ گیا۔

حجت الاسلام علم الھدی نے آخر میں کہا کہ آںحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی یہ سیرت باعث بنی کہ مشرکان دین پر بہت اچھا اثر مرتب ہوا اور لوگوں کا ذہن دین اور دینی تعلیمات کو قبول کرنے پر آمادہ ہوا۔

[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *