یہ تلنگانہ ہے یا اترپردیش: شوبھا یاترا کے موقع پر مساجد کے لاؤڈ اسپیکرس استعمال نہ کریں، مساجد کو پولیس کمشنر کی دھمکی

حیدرآباد: تلنگانہ، جو اپنی گنگا جمنی تہذیب، رواداری اور مذہبی ہم آہنگی کیلئے جانا جاتا ہے، اب ایک نئے تنازعہ کا سامنا کر رہا ہے۔ حیدرآباد کے گاندھی نگر علاقہ میں ہنومان جینتی کے موقع پر نکالی جانے والی شوبھا یاترا کے دوران، پولیس کی جانب سے مساجد کو ساؤنڈ سسٹم استعمال نہ کرنے کی ہدایت دی گئی ہے۔

گاندھی نگر پولیس انسپکٹر کی جانب سے جاری کردہ نوٹس میں کہا گیا ہے کہ کمشنر پولیس کی ہدایت کے مطابق یاترا کے راستے میں آنے والی کسی بھی مسجد کو جلوس کے دوران ساؤنڈ سسٹم کے استعمال کی اجازت نہیں ہوگی۔

صرف جلوس کے اختتام کے بعد معمول کے مطابق عبادات کیلئے ساؤنڈ سسٹم کا استعمال کیا جا سکتا ہے۔ پولیس نے یہ بھی واضح کیا کہ ہدایت کی خلاف ورزی کی صورت میں مسجد کمیٹی یا ذمہ دار افراد کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔

تلنگانہ میں ہمیشہ سے ہندو مسلم بھائی چارہ کی فضا قائم رہی ہے۔ ماضی میں ہندو برادری کے افراد جب کسی مسجد کے سامنے سے گزرتے تو احتراماً باجے بند کر دیتے تھے، اور پولیس بھی عبادات کے اوقات کا خیال رکھتے ہوئے جلوس کو وقتی طور پر روک دیا کرتی تھی۔ اسی روادارانہ رویے کی وجہ سے کبھی کسی مذہبی ادارے کو ساؤنڈ سسٹم بند کرنے کی ہدایت نہیں دی گئی، چاہے وہ گنیش وسرجن جیسا بڑا جلوس ہی کیوں نہ ہو۔

مگر اس مرتبہ ہنومان جینتی پر یکطرفہ طور پر صرف مساجد کو نوٹس دینا، کئی حلقوں میں تشویش کا باعث بن گیا ہے۔ سوال یہ اٹھایا جا رہا ہے کہ کیا تلنگانہ بھی اب اترپردیش کی طرز پر مذہبی پابندیوں کی راہ پر گامزن ہے؟

عوامی سطح پر یہ سوال بھی گونج رہا ہے کہ کیا کانگریس، جو اس وقت ریاست میں برسر اقتدار ہے، اس فیصلے کا دفاع کرے گی؟ یا وہ اس معاملے پر پولیس اور اربابِ اقتدار سے جواب طلبی کرے گی؟

تلنگانہ کے شہری، بالخصوص حیدرآباد کے عوام، جنہوں نے برسوں سے بھائی چارے اور باہمی احترام کو فروغ دیا ہے، آج اس نئی روش پر حیرت زدہ ہیں۔ کیا ریاست کی پرامن فضا کو بیرونی اثرات یا سیاسی دباؤ کے تحت بدلنے کی کوشش کی جا رہی ہے؟

یہ معاملہ صرف ایک ساؤنڈ سسٹم کا نہیں، بلکہ ایک ایسی روایت اور تہذیب کا ہے جو صدیوں سے اس سرزمین کی پہچان رہی ہے۔



[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *