قبائلی و اقلیتی پسماندگی پر توجہ دینے حکومت کی ضرورت: پروفیسر گھنٹا چکراپانی

حیدرآباد: حکومت کو ایک ایسی ہمہ گیر پالیسی اختیار کرنے کی ضرورت ہے جس میں ایس سی، ایس ٹی، او بی سی اور اقلیتوں کو یکساں نظر سے دیکھا جائے اور سب کو مساوی مواقع فراہم کیے جائیں۔ ان خیالات کا اظہار پروفیسر گھنٹا چکراپانی، وائس چانسلر امبیڈکر اوپن یونیورسٹی نے حسینی علم پی جی و ڈگری کالج برائے نسواں میں منعقدہ ایک روزہ ورکشاپ سے خطاب کے دوران کیا۔

ورکشاپ کا موضوع “قبائلی اور اقلیتیں: پسماندگی کے چیلنجز اور پالیسی فریم ورک” تھا۔ پروفیسر چکراپانی نے کہا کہ انہیں پرانا شہر آ کر ہمیشہ خوشی ہوتی ہے کیونکہ یہاں کوئی بھید بھاؤ نظر نہیں آتا۔ انھوں نے کالج کی 2500 طالبات کی اردو و انگریزی ذریعہ تعلیم کی ستائش کی۔

انہوں نے حکومت کی حالیہ پالیسیوں پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ دو دن قبل پارلیمنٹ میں منظورہ ایک بل نے اقلیتی طبقات میں خوف کا ماحول پیدا کر دیا ہے، جو اس بات کا مظہر ہے کہ ملک میں قبائلیوں اور اقلیتوں کے ساتھ انصاف نہیں ہو رہا۔ انہوں نے مزید کہا کہ قبائلی علاقوں کو کارپوریٹ اداروں کے حوالے کیا جا رہا ہے، جن سے مقامی افراد کو فائدہ نہیں ہو رہا، جس کے نتیجہ میں وہ مزاحمت پر مجبور ہو رہے ہیں۔

پروفیسر وینکٹیش ویدیتا (ای ایف ایل یو، حیدرآباد) نے اقلیتوں کی مختلف اقسام پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ آئین کے مطابق انہیں مساوی حقوق ملنے چاہئیں۔ پروفیسر ایم کرشنا کمار (عثمانیہ یونیورسٹی) نے کہا کہ اقلیتوں کے ساتھ ناانصافی آزادی سے قبل بھی موجود تھی اور آج بھی ترقی کے ثمرات تمام طبقات میں یکساں تقسیم نہیں ہو رہے۔

انہوں نے مردم شماری 2011 کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ مسلمانوں کی شرح خواندگی قومی سطح سے کم ہے جبکہ مسلمان ملک کی 20 فیصد آبادی پر مشتمل ہیں، لیکن آئی اے ایس اور آئی پی ایس افسران میں ان کا تناسب بالترتیب صرف 3 اور 4 فیصد ہے۔ انہوں نے ڈراپ آؤٹ کی بلند شرح کو بھی پسماندگی کی بڑی وجہ قرار دیا۔

پروفیسر محمود صدیقی محمد (مولانا آزاد یونیورسٹی) نے کہا کہ مسلمانوں کو اپنے مسائل کے ساتھ ساتھ دوسرے طبقات کے مسائل کو بھی اپنی جدوجہد میں شامل کرنا چاہیے۔ انہوں نے کہا:
“حیات لے کے چلو، کائنات لے کے چلو
چلو تو سارے زمانے کو ساتھ لے کے چلو”

ڈاکٹر ذوالفقار محی الدین صدیقی، صدر شعبہ عربی نے تمام مہمانوں کا خیرمقدم کیا، جبکہ ڈاکٹر فرحانہ سلطانہ (آرگنائزنگ سیکریٹری) نے کالج کے پروگراموں کی تفصیل پیش کی۔ ورکشاپ کی صدارت ڈاکٹر محمد غوث، صدر شعبہ سیاسیت نے کی۔

ڈاکٹر محمد غوث نے کہا کہ اس موضوع پر مشترکہ ورکشاپ رکھنے کی وجہ یہ ہے کہ قبائلی اور اقلیتی دونوں طبقات ایک جیسے مسائل سے دوچار ہیں اور دونوں کو حکومت کی خصوصی توجہ درکار ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان دونوں طبقات کی مشترکہ آبادی ریاست تلنگانہ اور ملک کی کل آبادی کا تقریباً 25 فیصد ہے، اس لیے ان کے لیے آئینی سطح پر مؤثر پالیسی فریم ورک کی ضرورت ہے۔ ورکشاپ میں کئی ماہرین تعلیم اور صحافی حضرات نے شرکت کی اور اپنے خیالات کا اظہار کیا۔



[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *