’مودی حکومت نے تعلیمی نظام کو کمزور کر دیا‘، نئی تعلیمی پالیسی پر سونیا گاندھی نے مرکز کو ہدف تنقید بنایا

سونیا گاندھی نے کہا کہ مرکزی تعلیمی مشاورتی بورڈ کی میٹنگ، جس میں مرکز اور ریاست دونوں حکومتوں کے وزیر تعلیم شامل ہیں، ستمبر 2019 سے نہیں بلائی گئی ہے۔

<div class="paragraphs"><p>سونیا گاندھی، ویڈیو گریب</p></div><div class="paragraphs"><p>سونیا گاندھی، ویڈیو گریب</p></div>

سونیا گاندھی، ویڈیو گریب

user

کانگریس پارلیمانی پارٹی کی صدر اور رکن پارلیمنٹ سونیا گاندھی نے مرکز کی مودی حکومت پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ ملک کے تعلیمی ڈھانچے کو کمزور کر رہی ہے۔ ان کے مطابق حکومت ’نقصاندہ نتائج کی طرف لے جانے والے ایجنڈے‘ پر چل رہی ہے۔ اپنا یہ نظریہ سونیا گاندھی نے انگریزی اخبار ’دی ہندو‘ میں تحریر کردہ ایک مضمون میں ظاہر کیا ہے۔

اس مضمون میں سونیا گاندھی نے کہا ہے کہ آج ہندوستانی تعلیم کو ’3 سی‘ کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے– سنٹرلائزیشن، کمرشیلائزیشن اور کمیونلزم۔ سونیا گاندھی کا کہنا ہے کہ حکومت مجموعی تعلیمی مہم کے تحت ملنے والے گرانٹ کو روک کر ریاستی حکومتوں کو ماڈل اسکولوں کے پی ایم-شری منصوبہ کو نافذ کرنے کے لیے مجبور کر رہی ہے۔

نئی تعلیمی پالیسی (این ای پی) 2020 کی تنقید کرتے ہوئے سونیا گاندھی اپنے مضمون میں لکھتی ہیں کہ ہائی پروفائل قومی تعلیمی پالیسی (این ای پی) 2020 کی شروعات نے ایک ایسی حکومت کی حقیقت کو چھپا دیا ہے جو ہندوستان کے بچوں اور نوجوانوں کی تعلیم کے تئیں بے حد لاپروا ہے۔ گزشتہ ایک دہائی میں مرکزی حکومت کے ٹریک ریکارڈ نے واضح طور سے ظاہر کیا ہے کہ تعلیم میں یہ صرف تین اہم ایجنڈا کے کامیاب نفاذ سے فکر مند ہے– مرکزی حکومت کے ساتھ اقتدار کا سنٹرلائزیشن، پرائیویٹ سیکٹر میں تعلیم میں سرمایہ کاری کا کمرشیلائزیشن اور آؤٹ سورسنگ، نصابی کتابوں، نصاب اور اداروں کا کمیونلائزیشن۔

سونیا گاندھی کے مطابق سنٹرلائزیشن کے سب سے مضر نتائج تعلیم کے شعبہ میں مرتب ہوئے ہیں۔ مرکزی تعلیمی مشاورتی بورڈ کی میٹنگ، جس میں مرکز اور ریاست دونوں حکومتوں کے وزیر تعلیم شامل ہیں، ستمبر 2019 سے نہیں بلائی گئی ہے۔ انھوں نے حکومت پر ریاستوں سے مشورہ نہ کرنے اور ان کے نظریات پر غور نہ کرنے کا الزام عائد کیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’’این ای پی 2020 کے ذریعہ سے تعلیم میں بڑی تبدیلی کو اختیار کرنے اور نافذ کرنے کے دوران بھی مرکزی حکومت نے ان پالیسیوں کے عمل درآمد پر ایک بار بھی ریاستی حکومتوں سے مشورہ کرنا مناسب نہیں سمجھا۔ یہ حکومت کی ضد کا ثبوت ہے، کہ وہ اپنے علاوہ کسی دیگر کی آواز نہیں سنتی، یہاں تک کہ ایسے موضوع پر بھی جو ہندوستانی آئین کی کنکرنٹ لسٹ میں ہے۔‘‘

سونیا گاندھی نے کہا کہ ڈائیلاگ کی کمی کے ساتھ ساتھ ’دھمکانے کی روش‘ بھی بڑھی ہے اور انھوں نے اس کے لیے پی ایم-شری (یا پی ایم اسکولس فار رائزنگ انڈیا) منصوبہ کی مثال دی۔ سونیا گاندھی نے مرکز پر تعلیمی نظام کے کمرشیلائزیشن کا بھی الزام عائد کیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’’یہ پوری طرح سے این ای پی کے نفاذ میں کھلے عام ہو رہا ہے۔‘‘ وہ کہتی ہیں کہ ’’2014 سے ہم نے ملک بھر میں 89441 سرکاری اسکولوں کو بند اور ضم ہوتے دیکھا ہے، اور 42944 اضافی پرائیویٹ اسکولوں کا قیام عمل میں آیا ہے۔ ملک کے غریبوں کو سرکاری تعلیم سے باہر کر دیا گیا ہے اور انھیں بے حد مہنگی اور کم ریگولیٹ پرائیویٹ اسکول نظام کے ہاتھوں میں دھکیل دیا گیا ہے۔‘‘

سونیا گاندھی کا کہنا ہے کہ اعلیٰ تعلیم میں مرکز نے یونیورسٹی گرانٹس کمیشن کے بلاک گرانٹس سے متعلق سابقہ نظام کی جگہ پر اعلیٰ تعلیمی فنڈ ایجنسی (ہیفا) کی شروعات کی ہے۔ یونیورسٹیوں کو ہیفا سے مارکیٹ شرح سود پر قرض لینے کے لیے حوصلہ بخشا جا رہا ہے، جسے انھیں اپنے خود کے پیسے سے ادا کرنا ہوگا۔ گرانٹس کے مطالبہ پر پانی 364ویں رپورٹ میں تعلیم پر پارلیمانی اسٹینڈنگ کمیٹی نے پایا کہ ان قرضوں کا 78 فیصد سے 100 فیصد حصہ یونیورسٹیوں کے ذریعہ اسٹوڈنٹس فیس کے ذریعہ سے ادا کیا جا رہا ہے۔ دوسرے لفظوں میں عوامی تعلیم کے فنڈ سے حکومت کے پیچھے ہٹنے کی وجہ سے طلبا کو فیس میں اضافہ کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

سینئر کانگریس لیڈر نے مرکز پر تعلیم میں کمیونل ایجنڈے کو شامل کرنے کا الزام بھی عائد کیا۔ انھوں نے لکھا ہے کہ ’’مرکزی حکومت کا تیسرا زور کمیونلائزیشن پر ہے، جو آر ایس ایس اور بی جے پی کے طویل مدت سے چلے آ رہے نظریاتی پروجیکٹ کا حصہ ہے۔ اس طرح تعلیمی نظام کے ذریعہ نفرت پیدا کرنے اور اسے فروغ دینے کی کوشش ہو رہی ہے۔‘‘ انھوں نے مزید کہا کہ قومی تعلیمی ریسرچ و تربیت کونسل (این سی ای آر ٹی) کی کتابوں میں ترامیم کی گئی ہیں تاکہ ہندوستانی تاریخ کو الگ انداز میں پیش کیا جا سکے۔ مثال پیش کرتے ہوئے سونیا بتاتی ہیں کہ ’’مہاتما گاندھی کے قتل اور مغل دور کے ہندوستان پر موجود حصوں کو نصاب سے ہٹا دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ ہندوستانی آئین کی تمہید کو نصابی کتابوں سے ہٹا دیا گیا تھا، جب تک کہ عوام کی مخالفت کے سبب حکومت کو ایک بار پھر لازمی طور سے شامل کرنے کے لیے مجبور نہیں ہونا پڑا۔‘‘

سونیا گاندھی نے یونیورسٹیوں میں کی جا رہی تقرریں کا معاملہ بھی اپنے مضمون میں اٹھایا۔ انھوں نے کہا کہ ’’ہماری یونیورسٹیوں میں ہم نے حکومت کے موافق نظریات والے پس منظر کے پروفیسرز کی بڑے پیمانے پر تقرری دیکھی ہے، بھلے ہی ان کی تعلیم اور اسکالرشپ کا معیار مضحکہ خیز طریقے سے خراب ہو۔ ہندوستانی ٹیکنالوجی انسٹی ٹیوٹ اور ہندوستانی مینجمنٹ انسٹی ٹیوٹ میں اہم مقامات میں قائدانہ عہدے، جنھیں پنڈت جواہر لال نہرو نے جدید ہندوستان کے مندر کی شکل میں تذکرہ کیا تھا، کو کمزور نظریات والوں کے لیے محفوظ کر دیا گیا ہے۔‘‘

اپنے مضمون میں سابق کانگریس صدر سونیا گاندھی نے مرکزی حکومت پر الزام عائد کیا ہے کہ گزشتہ ایک دہائی میں تعلیمی نظاموں کو منظم طریقے سے ’عوامی خدمت‘ کے جذبہ سے آزاد کر دیا گیا ہے اور تعلیمی پالیسی کو تعلیم کے معیار اور رسائی کے بارے میں کسی بھی فکر سے آزاد کر دیا گیا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔




[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *