100 سے زائد مسلم خاندان مستقبل کے بارے میں خوفزدہ۔ عید کے 15 دن کے اندر مکانات خالی کردینے کی ہدایت

حیدرآباد: علی گڑھ کے چِلکورا گاؤں میں 100 سے زائد مسلم خاندان اپنے مستقبل کے بارے میں خوفزدہ ہیں، کیونکہ مقامی انتظامیہ نے انہیں بے دخلی کے نوٹس تھما دیے ہیں۔ یہ نوٹس ان کے گھروں پر چسپاں کیے گئے ہیں اور انہیں ہدایت دی گئی ہے کہ عید کے 15 دن بعد تک جگہ خالی کر دیں، ورنہ ان کے مکان بلڈوزر سے گرائے جائیں گے۔

اس خبر نے گاؤں میں سنسنی پھیلا دی ہے اور ایک بار پھر بی جے پی کی حکومت والی ریاستوں میں بلڈوزر کارروائیوں کی بحث چھیڑ دی ہے۔ چلکورا موضع‘علی گڑھ میں مقامی انتظامیہ کی جانب سے نوٹس کی موصولی کے بعد 100 سے زائد مسلم خاندان اپنے مستقبل کے بارے میں فکر مند ہیں۔

نوٹسس ان کے مکانات پر چسپاں کردی گئیں جن میں کہا گیاکہ انہیں عید کے بعد اندرون 15 یوم تخلیہ کرنا ہوگا بصورت دیگر ان کے مکانات کو منہدم کردیا جائے گا۔یہ خاندان کہتے ہیں کہ وہ یہاں 40 سے 50 سال سے آباد ہیں۔ جمعرات کو بہت سے لوگ اپنے دستاویزات لے کر ضلع مجسٹریٹ (ڈی ایم) سے ملنے پہنچے۔ ان کے پاس اپنے مالکانہ حقوق ثابت کرنے ’بیع نامہ‘ کے کاغذات تھے۔

محمد اسلم نے کہا جن کے خاندان کو بھی نوٹس ملا ”ہم یہاں اتنے برسوں سے رہ رہے ہیں، ہمارے پاس ثبوت ہیں کہ یہ ہمارا گھر ہے۔ ہمارے ساتھ ایسا کیوں ہو رہا ہے؟“تین بچوں کی ماں رضیہ بیگم نے کہا”یہ نوٹس عید سے پہلے ملے جس کی وجہ سے خوشی کا موقع خوف میں بدل گیا۔ہمیں عید کی تیاری کرنی چاہیے تھی،مگر اس کے بجائے ہمیں سب کچھ کھونے کا ڈر لگا ہوا ہے۔ میرے بچے خوفزدہ ہیں۔“کچھ خاندانوں کا ماننا ہے کہ انتظامیہ پر کسی کا دباؤ ہے لیکن انہیں معلوم نہیں کہ یہ سب کس کے کہنے پر ہو رہا ہے۔

اتر پردیش، مدھیہ پردیش، اتراکھنڈ، گجرات اور آسام جیسی بی جے پی حکومت والی ریاستوں میں حالیہ دنوں میں بلڈوزر کا استعمال عام ہو گیا ہے۔ حکومتوں کا کہنا ہے کہ وہ غیر قانونی تعمیرات ہٹا رہی ہیں لیکن کئی لوگ اسے یکطرفہ کارروائی قرار دے رہے ہیں، خاص طور پر مسلمانوں کے خلاف۔ اتر پردیش میں چیف منسٹر یوگی آدتیہ ناتھ کو’بلڈوزر بابا‘ کہا جاتا ہے کیونکہ وہ اس معاملے میں سخت موقف رکھتے ہیں۔

چِلکورا کے مکین اپنی زمین بچانے کے لیے لڑ رہے ہیں۔احمد خان نے کہا جو 54 برس سے گاؤں میں ایک دکان چلارہے ہیں ”یہ کوئی غیر قانونی بات نہیں ہے،ہم ٹیکس دیتے ہیں، بجلی اور پانی کے بل ہمارے نام پر ہیں۔سب کچھ ثابت کرتا ہے کہ ہم یہاں قانونی طور پر رہتے ہیں۔ پھر ہماری بات کیوں نہیں سنی جا رہی؟“ ان لوگوں نے انتظامیہ سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ان کے کاغذات دیکھے اور بے دخلی کا فیصلہ واپس لے۔

ابھی تک انتظامیہ نے زیادہ وضاحت نہیں کی ہے۔ نہ یہ بتایا گیا ہے کہ نوٹس کیوں جاری ہوئے اور نہ یہ کہ آگے کیا ہونے والا ہے۔ گاؤں والے شدید بے یقینی اور خوف میں مبتلا ہیں۔یہ صرف علی گڑھ کی کہانی نہیں ہے۔ حالیہ دنوں میں اتر پردیش سمیت کئی جگہوں پر گھروں اور دکانوں پر بلڈوزر چلائے جا رہے ہیں۔ حکومت کا مؤقف ہے کہ یہ سب ’عوامی مفاد‘ میں کیا جا رہا ہے، لیکن مخالف جماعتوں کا کہنا ہے کہ غریبوں اور مسلمانوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

سپریم کورٹ نے بھی ان کارروائیوں پر عدم اطمینان کا اظہار کیا ہے۔علی گڑھ میں 15 دن کی مہلت تیزی سے ختم ہو رہی ہے۔ کیا انتظامیہ لوگوں کے دستاویزات دیکھ کر فیصلہ تبدیل کرے گی یا بلڈوزر آ ہی جائیں گے؟ فی الحال، گاؤں میں خاموشی تو ہے مگر ہر طرف خوف چھایا ہوا ہے۔اسلم نے لرزتی آواز میں کہا”ہمارے پاس جانے کے لیے اور کوئی جگہ نہیں،۔یہ ہمارا گھر ہے۔ اگر یہ بھی چھن گیا، تو ہم کیا کریں گے؟“ ان خاندانوں کے لیے آنے والے دن سب کچھ بدل سکتے ہیں۔



[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *