ٹنکونے علاقہ میں جمع مظاہرین نے پرامن انداز میں مارچ نکالا، لیکن جیسے ہی انھوں نے پولیس کی بیریکیڈنگ توڑنے کی کوشش کی، حالات بے قابو ہو گئے۔ مظاہرین نے سیکورٹی فورسز پر پتھراؤ شروع کر دیا۔


نیپال میں سڑکوں پر جمع مظاہرین، تصویر@sidhant
بنگلہ دیش میں عوامی انقلاب نے جو تختہ پلٹ کا نظارہ پیش کیا تھا، کچھ ایسے ہی حالات نیپال میں بھی بنتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔ نیپال کی راجدھانی کاٹھمنڈوں میں جمعہ کے روز ’راج شاہی کی بحالی‘ کا مطالبہ کرتے ہوئے مظاہرین سڑکوں پر نکل آئے اور تشدد والے حالات پیدا ہو گئے۔ مظاہرین نے ٹنکونے علاقہ میں ایک عمارت کو نذر آتش بھی کر دیا اور کئی مقامات پر توڑ پھوڑ کی خبریں بھی سامنے آ رہی ہیں۔
حکومت کے خلاف عوام کی بڑھتی ہوئی ناراضگی اور راج شاہی کے حامیوں کا اشتعال دیکھتے ہوئے نیپال مین سیاسی عدم استحکام گہرانے لگا ہے۔ ایسے میں سوال اٹھنا لازمی ہے کہ کیا نیپال بھی بنگلہ دیش کی طرح کسی بڑے سیاسی بحران کی طرف بڑھ رہا ہے؟ ٹنکونے علاقے میں جمع مظاہرین کے تعلق سے بتایا جا رہا ہے کہ پہلے تو انھوں نے پرامن مارچ نکالا، لیکن جیسے ہی انھوں نے پولیس کی بیریکیڈنگ تورنے کی کوشش کی، حالات بے قابو ہو گئے۔ مظاہرین نے سیکورٹی فورسز پر پتھراؤ شروع کر دی، جس کے جواب میں پولیس نے آنسو گیس کے گولے چھوڑے اور لاٹھی چارج کیا۔ اس دوران کئی لوگ زخمی بھی ہو گئے۔ مظاہرین کا الزام ہے کہ حکومت قصداً ان کی آواز دبانے کی کوشش کر رہی ہے۔
اس مظاہرہ کی قیادت نوراج سویدی کی قیادت والی ’مشترکہ تحریک کمیٹی‘ نے کی، جس میں متنازعہ کاروباری درگا پرسائی کے حامی بھی شامل تھے۔ اس کے علاوہ راشٹریہ پرجاتنتر پارٹی (راج شاہی حامی پارٹی) کے سربراہ راجندر لنگدین نے بھی اس مظاہرہ کو اپنی حمایت دی۔ ان گروپوں کا دعویٰ ہے کہ نیپال مین آئینی راج شاہی اور ہندو راشٹر کی بحالی ہی ملک کے مسائل کا حل ہے۔
قابل ذکر ہے کہ نیپال 2008 تک ایک آئینی راج شاہی ملک ہوا کرتا تھا، لیکن ماؤوادی تحریک اور جمہوری تبدیلیوں کے سبب اسے ایک جمہوری ملک قرار دیا گیا۔ حالانکہ گزشتہ کچھ سالوں میں کئی گروپ نیپال میں پھر سے راج شاہی اور ہندو راشٹر کی بحالی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ بڑھتی مہنگائی، بدعنوانی اور سیاسی عدم استحکام کے سبب عوام کا ایک طبقہ موجودہ نظام سے غیر مطمئن نظر آ رہا ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔