لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ کے لئے ریاضت کرو

سیف الاسلام فاروقی

اللہ عزوجل نے شرک، کفر، طاغوت اور منافقت کے ماحول میں امت مسلمہ کو ہر سال رمضان المبارک کا عظیم تحفہ دے کر داغدار ضمیروں کو ایک ماہ کتاب و سنت سے عبدیت کے گُر و ہنر سیکھانے اور عملی طور پر استقامت کے ساتھ مواحد بندہ بننے اور استقامت کے ساتھ ڈٹ جانے کا ٹریننگ کورس عنایت فرمایا ہے،

الحمد للہ رب العالمین!

 

اس مبارک ماہ میں اللہ عزوجل کے دربار میں مطلوب لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ کے مقام بلند پر فائز ہونے کے اہل بننے کے لئے ذیل میں چند اہم امور کا ذکر کیا جارہا ہے جو بعض مسلمان اگرچہ بے شعوری سے انجام دیتے چلے جاتے ہیں تاہم جس سے لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ سے محرومی بھی ممکن ہے :

 

افطار کی دعوتیں :

 

اس تکلف کا اہتمام کرنے والے اپنے اس عمل کو صحیح ثابت کرنے کے لئے افطار کرانے کے فضائل والی احادیث کا حوالہ دیتے ہیں لیکن غیر شعوری طور پر انکی نگاہوں سے ہونے والے بڑے گناہ مہو ہو جاتے ہیں جن میں کچھ یہ ہیں :

 

مدعوین میں سے اکثریت کی نمازِ عصر افطار کی دعوت کے لئے ہونے والے سفر کی وجہ سے ضائع ہو جاتی ہے یا پھر جماعت کے آجر سے محروم ہو جاتے ہیں – بعد نمازِ عصر افطار سے پہلے تک کے قیمتی لمحات جو مسنون اذکار کے لئے ہوتے ہیں ، داعی و مدعو دونوں اس سے محروم رہتے ہیں ، افطار کے وقت کی طوالت کے وجہ سے اکثر داعی و مدعو دونوں نمازِ مغرب باجماعت سے محروم ہو جاتے ہیں – اسی طرح داعی اور مدعوین میں سے اکثریت کی نمازِ عشاء اور نمازِ تراویح بھی فوت ہو جاتی ہے — بعض مسلمان افطار کی دعوت کو آپسی ملاقات کا ذریعہ سمجھتے اور سمجھاتے ہوئے نظر آتے ہیں جبکہ انہیں آپسی ملاقات کے لئے پورا سال میسر آتا ہے لیکن وہ غیر شعوری طور پر رمضان المبارک ہی کا احترام پامال کرنے پر مصر ہوتے ہیں!

 

افطار کا وقت :

 

روزہ افطار کرنے کے سلسلے میں امت مسلمہ میں دو اوقات چند منٹ کے فرق کے ساتھ دلائل کی روشنی میں معروف بھی ہیں اور عامل بھی ہیں لیکن انتہا اس وقت دیکھی جاتی ہے جب کچھ لوگ ایک وقت کو صحیح اور دوسرے وقت کو غلط ثابت کرنے کی ناپسندیدہ سعی کرتے ہوئے اپنے پسندیدہ مسلک کی تبلیغ کے لئے استعمال کرتے ہیں جبکہ علمی طور پر پسماندہ ان نادانوں کو کامل کتاب و سنت کی اتباع و تبلیغ کرنی چاہیئے – دوسری انتہا یہ دیکھی جاتی ہے کہ کچھ لوگ روزہ افطار کرنے کے عین وقت دعاؤں اور مناجات میں مصروف ہوجاتے ہیں جبکہ افطار کے وقت سب سے افضل عبادت و عمل روزہ افطار کرنا ہے اس طرح سے یہ دونوں رویے جہل کو ثابت کرتے ہیں کیونکہ نیکی وہی ہے جو کتاب و سنت اور امت مسلمہ کے عمل تواتر سے ثابت ہے –

 

تراویح کی رکعتوں کی تعداد:

 

اللہ رب العزت نے امت مسلمہ کو کتاب و سنت کی روشنی میں عبدیت کے تقاضے پورے کرنے کے لئے پیدا کیا ہے – رمضان المبارک عبادت و ریاضت کی معراج حاصل کرنے کی عاجز و سنجیدہ کوشش کے لئے عطا کیا گیا ہے – جو مسلمان خشوع، خضوع و للہیت کے ساتھ تراویح میں 8 رکت پڑھے اور جو 20 رکعت پڑھے دونوں کو توبہ و استغفار کرتے ہوئے اللہ عزوجل سے قبولیت کے لئے دعائیں کرتے رہنا چاہیئے ناکہ جاہلانہ راستہ اختیار کرتے ہوئے 8 رکعت کو 20 رکعت پر فضیلت دینے کی کوشش کرنا اور نہ ہی 20 رکعت پڑھنے والے 8 رکعت پڑھنے والوں کو معتوب کرنے کی ناپسندیدہ سعی کرنی چاہیئے کیونکہ ان دونوں اعمال میں سے کسی پر بھی اصرار مسلکی جہالت کو ثابت کرتے ہیں اور ایک نفل کے لئے امت مسلمہ میں افتراق و انتشار پھیلاتے ہوئے اتحاد بین المسلمین جیسے اللہ رب العزت کو محبوب عمل جس کا مقام فرض کا ہے اس کو پارہ پارہ کرتے ہیں اور اللہ رب العزت کے عذاب کو دعوت دیتے ہیں –

 

زکوٰۃ کی ادائیگی :

 

جو دینی جماعتیں اور ادارے زکوٰۃ کو اجتماعی طرز پر جمع کرنے کی باتیں کرتے ہیں وہ دراصل دین کی مادی تعبیر و مادیت کی شدید محبت میں یہ بھول جاتے ہیں کہ اس ذمہ داری کو خلافت قائم ہونے کے بعد خلیفہ کے تحت انجام دینے کی تعلیم دی گئی ہے – البتہ اقامتِ دین کے قیام کے لئے جدوجہد جاری رکھنا چاہیئے اور جب اقامتِ دین کا کام مکمل ہوجائے تب لازماً زکوٰۃ جمع کرنے کا عمل اجتماعی ہونا چاہیئے –

 

جو دعوتی ادارے اور اسلامی تحریکیں غلبہ اسلام / اقامتِ دین کی حقیقی و زمینی محنت میں مصروف ہوں یعنی جن کے دستور میں ڈیکلیئرڈ نصب العین دین اسلام کو غالب کرنے کا ہو تو انہیں فی سبیل اللہ کی مد میں زکوۃ دی جا سکتی ہے لیکن اگر کسی جماعت میں اس نصب العین سے محض علامتی طور پر منسلک افراد اور امت سے زکوٰۃ، صدقات اور خیرات حاصل کرنے کے لئے دھوکے کے طور پر ان اصطلاحات کا استعمال کرتے ہوں جبکہ زمینی طور پر سیکولرازم کے استحکام کے لئے کام کرتے ہوں تو انہیں زکوٰۃ دینا قطعی طور پر درست نہیں ہے اور امت مسلمہ میں مسلکی منافرت (sectarianism) پھیلانے والے مدارس، دعوتی ادارے یا دینی جماعتوں کو بھی زکوٰۃ دینا درست نہیں ہے۔ یہ دراصل اپنی زکوۃ کو ضائع کرنے کے مترادف ہے ۔

 

اس سے بہت بہتر ہے کہ زکوٰۃ کے استعمال کے سلسلے میں جن آٹھ مدات کا قرآن مجید میں حکم موجود ہے اس میں دو اہم مدات قرض دار اور مساکین ہیں اور اس طرح سے ہر خاندان اور محلے میں ایسے مستحق افراد موجود ہوتے ہیں لہٰذا رمضان المبارک میں ان دو مدات پر توجہ دینی چاہیئے – اس طرح سے دہرا اجر ملے گا، ان شاء اللہ ۔۔۔ ایک رشتے داروں سے صلہ رحمی کا اور دوسرے محلے میں پڑوسی کا خیال رکھنے کا ۔

 

رمضان المبارک میں حتی المقدور تقویٰ اختیار کرنے اور پیدا کرنے کی ذاتی تعلیم و ریاضت حاصل کرتے ہوئے یہ ضرور یاد رکھنا چاہیئے کہ تقویٰ کا حصول اللہ عزوجل اور رسول اللہ کے احکام شریعہ کی فقط غیر مشروط غلامی و اتباع کرنے کا نام ہے – امت مسلمہ پر توحید کا راستہ اختیار کرنے لئے جیسے یہ لازم ہے کہ وہ اللہ عزوجل کی ذات، صفات اور اختیارات میں کسی غیر اللہ کو شریک نہ کرے ورنہ وہ شرک کرنے والی ہوجائے گی – توحید الوہیت، توحید ربوبیت اور توحید اسماء وصفات کے گہرے علم اور واقفیت سے معلوم ہوتا ہے کہ امت مسلمہ کے سلف صالحین کا منہج امراء، حکام اور کسی بادشاہ کے درباری غلام بننے کی دعوت ہرگز نہیں تھا بلکہ اس پر موت کو ترجیح دینا تھا تاکہ وہ کتاب و سنت سے غداری کرنے کے مجرم نہ ہوجائیں بلکہ وہ تو یقینی طور پر اپنے قول، فعل، اعضاء و جوارح سے صرف جامع توحیدِ کی ترجمانی کرنے کو ترجیح دیتے اور ظالم بادشاہ، امراء اور حکام کے سامنے سجدہ کرنے پر مصائب و ابتلاء کو گلے لگاتے تھے –

 

امت مسلمہ کے سلف صالحین کا کتاب و سنت کے سلسلے میں وفاداری کا منہج قرآن مجید کی اس آیت سے سمجھا جاسکتا ہے :

 

وَاعْبُدْ رَبَّكَ حَتَّىٰ يَأْتِيَكَ الْيَقِينُ

 

ترجمہ: اور اُس آخری گھڑی تک اپنے رب کی بندگی کرتے رہو جس کا آنا یقینی ہے

 

یعنی وہ مرتے دم تک کتاب و سنت سے وفاداری کا تعلق رکھتے تھے ناکہ کتاب و سنت کے محدود احکام پر ایمان اور بڑے حصے سے کفر کرتے تھے .

 

سوال یہ ہے کہ اس طرح سے دین کے بنیادی احکام کو چھوڑ کر دین کی محنت کیسے کی جاسکتی ہے؟؟؟

[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *