اپوزیشن اتحاد کو ”بھارت“ سے موسوم کرنے کا مشورہ

[]

نئی دہلی: کانگریس قائد ششی تھرور نے آج انڈیا۔ بھارت نام کے تنازعہ پر حکومت کو نشانہ تنقید بناتے ہوئے کہا کہ اگر اپوزیشن بلاک خود کو ”بہتری، ہم آہنگی اور ذمہ دارانہ ترقی کے لیے اتحاد (بھارت)“ کہہ سکتا ہے تو شاید حکمراں جماعت نام بدلنے کا یہ مکروہ کھیل بند کردے۔

 صدر جمہوریہ دروپدی مرمو کی طرف سے بھیجے گئے G-20 ڈنر کے دعوت ناموں کے بعد ان کا یہ تبصرہ سامنے آیا ہے جس میں روایتی طور پر صدر جمہوریہ ہند کے بجائے بھارت کے صدر کے طور پر ان کے عہدہ کو بیان کیا گیا، جس کے نتیجہ میں منگل کے روز بڑے پیمانہ پر ہنگامہ ہوا اور اپوزیشن نے الزام لگایا کہ مودی حکومت اس کی مخالف ہے۔

 وہ ملک کے نام سے انڈیا نکالنے اور صرف بھارت برقرار رکھنے کا منصوبہ بنا رہی ہے۔ ششی تھرور نے ایکس پر اپنے ایک پوسٹ میں کہا کہ ہم یقینا اپنے آپ کو الائنس فار بیٹرمنٹ، ہارمونی اینڈ ریسپانسبل اڈوانسمنٹ فار ٹومارو (بھارت) کہہ سکتے ہیں۔ پھر شاید حکمراں جماعت نام بدلنے کے اس گھٹیا کھیل کو روک دے۔

 واضح رہے کہ کانگریس‘ انڈین نیشنل ڈیولپمنٹل انکلیوسیو الائنس (انڈیا) کا ایک حصہ ہے۔ کانگریس جنرل سکریٹری جئے رام رمیش نے منگل کے روز ایکس پر کہا مودی تاریخ کو مسخ کرتے ہوئے ہندوستان کو تقسیم کرنا جاری رکھ سکتے ہیں۔

بھارت یعنی ریاستوں کا اتحاد، لیکن ہم باز نہیں آئیں گے۔ آخر انڈیا (اتحاد) جماعتوں کامقصد کیا ہے۔ یہ بھارت (ہم آہنگی، دوستی، مفاہمت اور بھروسہ لاؤ) ہے۔

 ”جڑے گا بھارت۔ جیتے گا انڈیا“ تھرور نے منگل کو کہا تھا کہ اگرچہ ہندوستان کو بھارت کہنے پر کوئی دستوری اعتراض نہیں ہے، لیکن انھیں امید ہے کہ حکومت اتنی احمق نہیں ہے کہ وہ انڈیا نام سے مکمل طور پر دستبردار ہوجائے، جس کی بے شمار برانڈ ویلیو ہے۔

کانگریس رکن پارلیمنٹ نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ پاکستان کے بانی محمد علی جناح نے انڈیا کے نام پر اعتراض کیا تھا، کیوں کہ اس کا مطلب یہ تھا کہ ہمارا ملک برطانوی راج کی جانشین ریاست ہے اور پاکستان ایک الگ ریاست ہے۔



[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *