بھارت میں فاشزم یا سیکولرزم؟ مسلمان اور لائحہ عمل

تحریر:سید سرفراز احمد

اس بات سے ملک کا کوئی بھی شہری انکار نہیں کرسکتا کہ اس ملک کی بنیاد سیکولرزم اور جمہوریت پر رکھی گئی اس کی اہم وجہ صرف یہی ہے کہ وطن عزیز میں کثیر المذاہب کے ماننے والے رہتے ہیں آزاد ہند سے قبل انگریزوں نے اس ملک پر قبضہ جماۓ رکھا تھا اور وہ ہندو مسلم میں پھوٹ ڈال کر اس ملک کے اتحاد کو پارہ پارہ کرتے رہے غداری کرنے والوں نے انگریزوں کی غلامی میں رہ کر ملک سے بے وفائی کی اور فرقہ پرستی کی جڑوں کا مضبوط بنانے کا کام کرتے رہے جس کے تنہ ور درخت آج کے موجودہ بھارت میں دیکھنے کو مل رہے ہیں حالانکہ ملک کی تقسیم کے دوران اس ملک کا مسلمان اپنی سرزمین چھوڑ کر ایک انچ بھی آگے نہیں بڑھا بلکہ جس وطن عزیز کی ارض پاک کو اپنا لہو دے کر سینچا تھا وہ یہیں رہنا پسند کیا جب کہ اس ملک میں اکثریت ہندو طبقہ کی تھی شائد مسلمانوں کے آبا و اجداد نے یہی سوچ کر یہ فیصلہ لیا تھا کہ ہندو مسلم اس ملک میں باہمی اتحاد اور بھائی چارے کے ساتھ رہیں گے۔

 

آزادی کے بعد سے اس ملک میں ہندو مسلم اتحاد ایک طویل عرصہ تک قائم بھی رہا بہت کچھ نشیب و فراز آتے رہے ملک کے مختلیف مقامات پر منظم انداز میں فسادات کرواتے ہوۓ ہندو مسلم میں مذہبی منافرت کی آگ لگائی گئی قتل و غارت گیری کے بڑے واقعات رونما ہوۓ لیکن ایک بڑی حد تک اس ملک کی بنیاد جن چیزوں پر قائم ہوئی تھی وہ برقرار رہی لیکن آزاد ہند سے قبل جو فسطائی ذہنیت کے پیش روا تھے انھوں نے ہندو مسلم فرقہ پرستی کی جو بنیاد رکھی تھی اس کو تحریک کی شکل دیتے ہوۓ ایک منظم لائحہ عمل ترتیب دے کر ایک مخصوص نظریاتی نفرت کا بیج بویا تھا جن کا ہدف اور نظریہ یہی تھا کہ بھارت ایک ہندو ملک ہے اور یہاں ہندو راشٹر قائم ہوگا اور اس ملک پر مسلمانوں کا کوئی حق نہیں ہوگا گویا کہ مسلمانوں کو بیرونی حملہ آور کہنے سے بھی گریز نہیں کیا جاتا رہا اسی مناسبت سے یہاں کے مسلمانوں کو دوسرے درجہ کے شہری بنانے کا منصوبہ بھی بنایا گیا لیکن اس کے باوجود اس ملک کی جمہوریت اور سیکولرزم کو ماننے والوں کی کثیر تعداد تھی لہذا ایک طویل عرصہ تک ان بنیادوں پر ملک گامزن رہا اور کبھی درمیان میں کسی بھی شہری کو یہ محسوس نہیں ہوا کہ اس ملک کی جمہوریت اور سیکولرزم کھوکھلی ہوچکی ہے یا کسی بھی مذہب نے یہ احساس نہیں جتایا کہ فلاں مذہب اس ملک میں اب غیر محفوظ ہے۔

 

لیکن نفرت کا جو بیج سوسال پہلے بویا گیا تھا وہ تحریک کبھی ماند نہیں پڑی اس کی بنیادی وجہ یہی تھی کہ وہ ایک مخصوص نظریہ کے ساتھ آگے بڑھ رہے تھے وہ اپنے مشن میں جہد مسلسل کے ساتھ زمینی سطح پر کام کرتے رہے اقلیتی طبقات کے خلاف اکثریتی طبقہ کی ذہن سازی کرتے رہے لازمی ہے کہ بلاوجہ کسی بھی فرد واحد کی یوں ہی ذہن سازی نہیں ہوسکتی اس کے لیئے کچھ ٹھوس شواہد بتانے پڑتے ہیں لہذا اس تحریک نے مذہبی جنونیت کا سہارا لیتے ہوۓ جبراً ہندو مسلم میں نفرت کی آگ لگاتے رہے اور اکثریتی سماج کو یہ باور کروانے کی کوشش کرتے رہے کہ اس ملک کا مسلمان ہندو طبقہ کا اصل دشمن ہے اسی فرقہ پرستی کی چال میں یہ اپنی سیاسی طاقت کو مضبوط کرتے رہے عوام اس فرقہ پرستی کی زد میں آکر انھیں اقتدار سونپتی رہی شائد کچھ سیکولر ذہن قائدین کی وجہ سے وہ اپنے مقصد کو جارحانہ رویہ میں نہیں بدل سکے اور بالآخر پچھلے گیارہ سال پہلے ملک کے اکثریتی طبقہ کی آنکھوں میں دھول جھونک کر انھیں ہندو خطرے میں کا خوف دلواکر ووٹ بٹورتے ہوۓ یہی فسطائی طاقت اس ملک کی کمان اپنے ہاتھ میں لے لی اور مسلمانوں کے خلاف جارحانہ سیاست کی اننگز کا آغاز کردیا۔

 

پچھلے گیارہ سالوں سے ہمارے ملک کے مطلق العنان حکمران سیکولرزم اور جمہوریت کو بالاۓ طاق رکھتے ہوۓ فاشزم کو فروغ دے رہے ہیں سوال یہ ہے کہ فاشزم یا فسطائیت کسے کہتے ہیں؟معروف دانشور اور سوویت انقلاب میں لینن کے قریبی ساتھی لیؤن ٹراٹسکی کے مطابق فاشزم سرمایہ دارانہ سماج کی وہ کیفیت ہے جب عوام کی حقیقی نمائندہ جماعتوں کی بوجوہ شکست یا عدم موجودگی کی وجہ سے پیدا ہونے والے خلاء کو سیاسی عمل کے ذریعے ایسی پارٹیاں پُر کرتی ہیں جو عوام کو نفرت اور انتقام پر مبنی، مذہبی نسلی اور دیگر انتہا پسند نظریات کے گورکھ دھندوں میں الجھا کر اقتدارپر قبضہ کر لیتی ہیں اور پھر اپنے اقتدار کو برقرار رکھنے کے لیے سماج پر جبر کا ایک لا متناہی سلسلہ شروع کر دیتی ہے

 

گویا کہ فاشزم جمہوریت کے نام پر بدترین آمریت کا دوسرا نام ہے جس میں تمام آمرانہ طاقتیں باہمی گٹھ جوڑ سے اقتدار پر قابض ہوجاتی ہیں۔

 

فاشسٹ طاقتیں اپنا سب سے پہلا نشانہ محنت کش و باشعور طبقہ اور انقلابی عناصر کو بناتے ہیں اور پھر ان طبقات اور اداروں کو بھی اپنی آہنی گرفت میں لے کر مفلوج کر دیتے ہیں جنکی مدد سے وہ اقتدار پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں فاشزم میں ہر طرح کی ٹریڈ یونینس، اظہارِ رائے کی آزادی، انسانی حقوق اور عدالتی نظام کو تباہ و برباد کر دیا جاتا ہے اور اپنے مخالفین کو ملک و قوم کا غدار قرار دے کر انتقامی کاروائیوں کے ذریعے چن چن کر ختم کیا جاتا ہے فاشسٹ حکمران کی سب سے بڑی نشانی یہ ہوتی ہے کہ وہ خود کو نجات دہندہ اور دیوتا قرار دے دیتا ہے یہاں یہ تذکرہ کرنا بے جا نہ ہوگا کہ اگر کسی ملک میں آمرانہ نظام پہلے سے قائم ہے تو وہاں جمہوری انقلاب کے ذریعہ نظام تبدیل ہوجاتا ہے لیکن کہیں جمہوری نظام کے اندر بھی آمرانہ نظام چھپے ہوتے ہیں ماضی میں اس کی مثال ہٹلر اور مسولینی کی ملتی ہے دونوں ہی عوام کے منتخب حکمران تھے لیکن انہوں نے اپنے اپنے ملک میں نہ صرف تمام انسانی آزادیوں کو سلب کرتے رہے بلکہ نسلی برتری اور انتہا پسندی کے ذریعے دوسری جنگ عظیم کی شکل میں بنی نوع انسان کی بقا کو بھی خطرے میں ڈال دیا تھا۔

 

آیئے اب ہم جائزہ لیتے ہیں اپنے ملک کی موجودہ صورت حال کا،اوپر فاشزم کی تعریف اور آمرانہ حکمرانوں کی جتنی مثالیں پیش کی گئی کیا اس وقت ہمارے ملک میں اس کی عکاسی نظر آرہی ہے؟جواب تلاش کرنے پر معلوم ہوتا ہے ملک میں اس وقت ہر طرف نفرت کا نشہ سر چڑھ کر بول رہا ہے مسلمانوں کے خلاف نفرت، نسلی تعصب ،ظلم و تشدد کے انگنت واقعات پیش آرہے ہیں ان واقعات کو دیکھ کر کوئی بھی سینہ ٹھوک کر نہیں کہہ سکتا کہ اس ملک میں عملی طور پر سیکولرزم باقی بھی ہے حلانکہ کہ جمہوریت کے چار مضبوط ستون مقننہ،انتظامیہ،عدلیہ،اور صحافت اس طرح کی آمرانہ حکمرانی کو چنے چبانے پر مجبور کرسکتے ہیں لیکن یہ بھی کسی حال میں ممکن نظر نہیں آرہا ہے مقننہ میں تعصب کی بناء پر ہر طرح کے سیاہ قوانین کو نافذ کیا جارہا ہے عدلیہ نشیب و فراز کی کشتی میں سوار ہے انتظامیہ کی صورت حال بہت سنگین ہے جس کے کئی نظارے شب وروز دیکھنے کو مل رہے ہیں میڈیا طوطے کی طرح حکومت کی مدح سرائی میں مگن ہے جو غیر جانب داری کو فراموش کرتے ہوۓ جانب داری کے گیت گنگنا رہا ہے پھر بھی اگر یہ کہنے کی کوشش کروائی جاتی ہے کہ یہ ملک جمہوری اصولوں اور سیکولرزم پر سختی سے عمل پیراہ ہے تو یہ ایک شدید قسم کا تضاد ہی نہیں بلکہ جمہوریت اور سیکولرزم جیسے الفاظ کی بھی حق تلفی ہوگی۔

 

ملک کی موجودہ صورت حال یہ ہوچکی ہے کہ اکثریتی طبقہ میں اقلیتی طبقہ کے تیئں مذہبی بیزاری حد درجہ سرائیت کرچکی ہے وہ جنون کے اعلی درجہ پر پہنچ چکے ہیں لیکن جمہوریت کے ستون ملک کو اصلی حالت میں لانے کے بجاۓ خود ڈگمگا رہے ہیں تو کیسے کہا جاۓ کہ اس ملک کی جمہوریت زندہ ہے؟ہاں یہ کہا جاسکتا ہے کہ جمہوریت براۓ نام باقی ہے لیکن عملی طور پر جمہوریت اس ملک میں زندہ لاش کے مترادف ہے سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس فاشزم یا فسطائیت سے کیسے نمٹا جاۓ؟مسلمانوں کے نزدیک اس کا کیا لائحہ عمل ہے؟ ملک کے مسلمانوں کی حالت ہر سمت سے زوال پذیر ہے ہم نے احکام الہیٰ اور اس کے کلام سے فاصلہ بنا رکھا ہے اتحاد کے معاملے میں ہم متحد ہونے کے منتشر کی حالت میں ہے مسلمانوں کی سیاسی و معاشی صورت حال کا جائزہ لیں گے تو صفر کے دائرے کار میں آتا ہے ان سب میں ضروری اور اہم کام یہی ہے کہ امت مسلمہ کے اندر ہر حال میں اتحاد کو مضبوط بنانا ہوگا ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار بننا ہوگا تب ہی ہم اپنے حقوق اور اس ملک کو اس کی اصلی حالت میں لانے کی فکر کرسکتے ہیں اگر آپ کے پاس اتحاد نہیں ہے اور آپ سڑکوں پر جم غفیر جمع کریں گے تو اس کے کچھ مثبت نتائج برآمد نہیں ہونگے کیونکہ اس ملک کا مسلمان پوری طرح سے فسطائی طاقتوں کے نرغے میں پھنسا ہوا ہے یہ طاقتیں یہی چاہتی ہے کہ غیر منظم بھیڑ سڑکوں پر اتریں اور یہ سازشوں کے ذریعہ اپنے مقصد کی تکمیل تک پہنچیں۔

 

دنیا نے آمرانہ حکمرانوں کا حال ماضی میں دیکھا ہے کہ ظلم ہر حال میں ظلم ہے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے ابھی اس ملک میں فاشزم کے پیر بہت تیزی کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں اسی تیزی کے ساتھ مسلمانوں کا متحد ہونا بھی انتہائی ناگزیر ہے جس نظریہ کو فسطائی طاقتیں اس ملک پر نافذ کرنا چاہتی ہے وہ ایک تحریک کی شکل میں ہے جس کا عرصہ حیات ایک طویل ہوسکتا ہے ابھی اس ملک کے مسلمانوں پر جو بھی گذر رہی ہے وہ اس کو جیسے بھی برداشت کررہے ہیں وہ کسی طاقت سے کم نہیں اب آپ مسلمانوں کو بے سہارا یا یتیم کہہ سکتے ہیں یا قیادت کا فقدان کہہ سکتے ہیں لیکن ایسے تشویش ناک حالات میں جو بھی آپ کی بات کررہا ہو آپ اپنا تعاون اس کو پیش کریں جیسے سپاہی حالت جنگ میں ہر چھوٹی مدد کو بھی بڑی نگاہ سے دیکھتا ہے بھلے ہی وہ اپنے دشمن کی طرف سے ہوں اسی طرح اس ملک کا مسلمان حالت حصار بندی میں ہے وہ ایسے غضب ناک حالات میں آپ کے حق کی بات کہنے والے کا بھر پور ساتھ دیں اور اس کی خامیوں پر خاموش رہیں کیونکہ کل جب آپ منظم انداز میں احتجاج پر بیٹھیں گے تو آپ کو بھلے ہی حزب اختلاف کی پارٹیاں ہی کیوں نہ ہو ان کا ساتھ لینا ضروری ہوتا ہے لوک سبھا ہو یا راجیہ سبھا وہاں آپ کی آواز کو بلند کرنا ہوتا ہے ہم نے دیکھا راہل گاندھی کس طرح دستور کے دفاع میں آواز اٹھا رہے ہیں حال ہی میں دیکھا اکھلیش یادو نے مہاراشٹر کے ابو عاصم اعظمی کی حمایت میں کھڑے رہے تیجسوی کو دیکھا وہ بہار میں مسلمانوں کی تائید میں کھڑے رہے بہ نسبت اس کے فسطائی طاقتوں کا ہر چھوٹے سے چھوٹا اور بڑے سے بڑا قائد بھی ہر دن کوئی نہ کوئی نفرت کی آگ اگل رہا ہے لہذا ان سیکولر قائدین کو اپنے ساتھ رکھتے ہوۓ اپنے مطالبات کو منوانے کی کوشش کریں اور بے خوف و خطر اپنی قیادت کے ساتھ جمہوری انداز میں اپنے حق کی آواز کو منظم انداز میں بلند کریں یہ ہمارا دستوری حق ہے اگر ہم آج اپنے حق کے لیئے آواز نہیں اٹھائیں گے اور اگر اپنے حق کے لیئے جدوجہد نہیں کریں گے اگر اس ملک کو فسطائیت سے تار تار ہونے سے نہیں بچا پائیں گے تو ممکن ہے آج نہ سہی مستقبل میں ہماری آنے والی نسلوں کو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑ سکتا ہے۔

[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *