معاشی طور پر کمزور ذہین طلبہ کو اعلیٰ اور پیشہ ورانہ تعلیم کے حصول میں مدد کرنے کے مقصد سے جمعیۃ علماء ہند نے 2012 سے ہر سال اسکالر شپ دینے کا اعلان کیا تھا، اور یہ سلسلہ جاری ہے۔


نئی دہلی: جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا ارشد مدنی نے مرکزی دفتر میں تعلیمی سال 2025-2024 کے لیے میرٹ کی بنیاد پر منتخب 915 طلبہ کے لیے ایک کروڑ 60 لاکھ روپے کے اسکالر شپ اتوار (16 مارچ) کو جاری کر دی۔ ان طلبہ میں ہمیشہ کی طرح اس بار بھی 46 غیر مسلم طلبہ شامل ہیں۔ اسکالر شپ کی رقم براہ راست ان کے کھاتوں میں ڈالی جا رہی ہے۔ واضح رہے کہ معاشی طور پر کمزور ذہین طلبہ کو اعلیٰ اور پیشہ ورانہ تعلیم کی حصول میں مدد کرنے کے مقصد سے جمعیۃ علماء ہند نے 2012 سے ہر سال اسکالرشپ دینے کا اعلان کیا تھا، اس کے لیے مولانا حسین احمد مدنی چیریٹیبل ٹرسٹ دیوبند اور جمعیۃ علماء ہند ارشد مدنی پبلک ٹرسٹ کی جانب سے ایک تعلیمی امداد فنڈ قائم کیا گیا اور ماہرین تعلیم پر مبنی ایک ٹیم تشکیل دی گئی جو ہر سال صلاحیت کی بنیاد پر طلبہ کا انتخاب کرتی ہے۔
سب سے اہم بات یہ ہے کہ رواں سال بڑی تعداد میں غیر مسلم طلبہ نے اسکالر شپ کے لیے درخواستیں بھیجی تھیں، ان میں سے میرٹ کی بنیاد پر 46 طلبہ کو اسکالر شپ کے لیے منتخب کیا گیا۔ اس کے پس پردہ صرف ایک ہی مقصد ہے کہ غریبی اور معاشی پریشانی کی وجہ سے ذہین بچے بغیر کسی رکاوٹ کے اپنی تعلیم جاری رکھ سکیں۔ مولانا مدنی نے کہا کہ تعلیم ہی واحد موثر ذریعہ ہے جس سے کوئی بھی قوم نہ صرف اپنی حفاظت کر سکتی ہے بلکہ اپنے خلاف ہونے والے پروپیگنڈے کا مناسب جواب بھی دے سکتی ہے۔ ہمیں یہ بات اچھی طرح یاد رکھنی چاییے کہ دنیا میں وہی قومیں ترقی کرتی ہیں جن کی نوجوان نسل تربیت یافتہ اور تعلیم یافتہ ہوں۔ علاوہ ازیں انہوں نے کہا کہ ہمارے بچے اب پورے جوش کے ساتھ پیشہ ورانہ تعلیم ہی نہیں بلکہ مسابقت میں بھی آگے بڑھ رہے ہیں، لیکن یہ افسوسناک سچائی ہے کہ مسلمان مجموعی طور پر معاشی پسماندگی کا شکار ہیں۔ تعلیمی اخراجات میں بہت زیادہ اضافہ ہو چکا ہے اس لیے ایسے بہت سے ذہین اور باصلاحیت طلبہ درمیان میں ہی تعلیم کو ترک کر دیتے ہیں جن کے والدین تعلیم کا خرچ نہیں اٹھا سکتے۔ علاوہ ازیں مولانا مدنی نے کہا کہ ایک تلخ حقیقت یہ بھی ہے کہ فرقہ وارانہ ذہنیت بھی مسلم بچوں کی تعلیم کی راہ میں رکاوٹ بن رہی ہے۔
مولانا مدنی نے آگے کہا کہ مولانا آزاد فاؤنڈیشن سمیت مسلمانوں کی تعلیمی ترقی کے لیے چلائی گئی دیگر اسکیموں کو بند کیا جا چکا ہے، ان رکاوٹوں کے باوجود اگر ہمارے بچوں میں تعلیم کا تناسب مسلسل بڑھ رہا ہے تو یہ ایک مثبت علامت ہے۔ انہوں نے ایک بار پھر زور دے کر کہا کہ یہ الزام عائد کیا جاتا ہے کہ ہم لڑکیوں کی تعلیم کے خلاف ہیں جو سراسر غلط اور بے بنیاد ہے۔ ہم لڑکیوں کی تعلیم کے نہیں بلکہ اس مخلوط تعلیم کے خلاف ہیں جس سے معاشرتی برائیوں کے پھیلنے کا خطرہ ہے، دنیا کا کوئی مذہب معاشرتی برائیوں کو پھیلانے کی اجازت نہیں دیتا ہے۔ ملک کی آزادی کے بعد ہم بحیثیت قوم تاریخ کے سب سے کمزور موڑ پر آ کھڑے ہیں، ہمیں ایک جانب مخلتف مسائل میں الجھایا جا رہا ہے تو دوسری جانب ہم پر معاشی، معاشرتی، سیاسی اور تعلیمی ترقی کے راستے بند کیے جا رہے ہیں۔ اس سازش کو اگر ہمیں ناکام بنانا ہے اور عزت و وقار حاصل کرنا ہے تو ہمیں اپنے بچوں اور بچیوں کے لیے تعلیمی ادارے قائم کرنے ہوں گے۔
مولانا مدنی نے اس حوالے سے مزید کہا کہ قوموں کی تاریخ گواہ ہے کہ ہر دور میں ترقی کی کنجی تعلیم ہی رہی ہے۔ اس لیے ہم ایک بار پھر قوم کے مخیر اور امیر لوگوں سے یہ گزارش کریں گے کہ وہ آگے بڑھ کر بچوں اور بچیوں کے لیے الگ الگ تعلیمی ادارے قائم کریں جہاں وہ کسی ڈر و خوف کے بغیر اپنی مذہبی شناخت اور اسلامی تربیت کے ساتھ تعلیم حاصل کر سکیں۔ یہ کوئی مشکل کام نہیں ہے، اس کے لیے ہمیں اپنی سوچ میں بدلاؤ لانے کی ضرروت ہے۔ اس طرح کی تعلیمی اداروں کو ایک مثالی ادارہ بنانے کی کوشش کی جانی چاہیے تاکہ ان میں غیر مسلم والدین بھی اپنے بچوں اور بچیوں کو تعلیم دلانے پر مجبور ہو جائیں، اس سے نہ صرف باہمی ہم آہنگی اور بھائی چارہ بڑھے گا بلکہ وہ غلط فہمیاں بھی ختم ہو جائیں گی، جو مسلمانوں کے خلاف فرقہ پرست عناصر کی جانب سے منصوبہ بند طریقے سے مسلسل پھیلائی جا رہی ہے۔
مولانا مدنی نے کہا کہ ہمارے بچوں میں ذہانت اور قابلیت کی کمی نہیں ہے۔ حال ہی میں کچھ سروے رپورٹس میں یہ بات نکل کر سامنے آئی ہے کہ مسلم بچوں میں نہ صرف تعلیم کا تناسب بڑھا ہے بلکہ تعلیم کے حصول میں دلچسپی پہلے سے کہیں زیادہ ہے۔ اس لیے ہمیں مایوس ہونے کی ضرروت نہیں ہے بلکہ اگر ہم انہیں متحرک کریں اور ان کی حوصلہ افزائی کریں تو راستے میں آنے والی ہر رکاوٹ کو دور کر کے کامیابی حاصل کر سکتے ہیں۔ ہمیں یہ یاد رکھنا ہوگا کہ گھر بیٹھے کوئی انقلاب نہیں آتا بلکہ اس کے لیے کوشش کرنے کے ساتھ ساتھ قربانیاں بھی دینی پڑتی ہیں۔
مولانا مدنی نے اخیر میں کہا کہ ایک جانب جہاں مذہبی انتہا پسندی کو ہوا دینے اور لوگوں کے دماغ میں نفرت کا زہر بھرنے کا بھیانک عمل پورے زور و شور سے جاری ہے، وہیں دوسری جانب مسلمانوں کو تعلیمی اور سیاسی طور پر کمزور کر دینے کا مہلک منصوبہ بھی شروع ہو چکا ہے۔ گزشتہ کچھ سالوں میں ملک کی معاشی حالت انتہائی کمزور ہوئی ہے اور بے روزگاری میں تشویشناک حد تک اضافہ ہو چکا ہے لیکن اس کے باوجود اقتدار میں بیٹھے لوگ ملک کی ترقی کا ڈھنڈورا پیٹ رہے ہیں اور اس مہم میں متعصب میڈیا ان کا کھل کر ساتھ دے رہا ہے۔ علاوہ ازیں انہوں نے کہا کہ معیشت اور بے روزگاری کے مسائل سے لوگوں کا دھیان ہٹانے کے لیے ہی مذہبی انتہا پسندی کو فروغ دیا جا رہا ہے۔ مذہبی نفرت اور فرقہ وارانہ بنیاد پر لوگوں کو تقسیم کرنے کا یہ کھیل ملک کو تباہ کر دے گا، مذہب کا نشہ دے کر بہت دنوں تک بنیادی مسائل کو چھپایا جا نہیں جا سکتا، روٹی، کپڑا اور مکان انسانی کی بنیادی ضروریات ہیں اس لیے نفرت کی سیاست کو فروغ دینے کے بجائے اگر روزگار کے وسائل پیدا نہیں کیے گئے اور تعلیم یافتہ نوجوانوں کو نوکریاں نہیں دی گئی تو وہ دن دور نہیں کہ جب ملک کی نوجوان نسل سڑکوں پر احتجاج کرتی نظر آئے گی۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔