
تلنگانہ ہائی کورٹ نے عادل آباد ضلع کے کاغذ نگر میں پیش آئے ایک قتل کیس میں عمر قید کی سزا پانے والے شخص کو دس سال بعد بے قصور قرار دے کر رہا کردیا
۔ یہ واقعہ 20 فروری 2014 کو پیش آیا تھا جب کارتک نامی شخص کا قتل ہوا تھا۔ اس قتل کے الزام میں شمشیر خان کو گرفتار کیا گیا تھا۔ ضلع عدالت نے 5 جنوری 2018 کو شمشیر خان کو عمر قید کی سزا سنائی تھی۔
شمشیر خان نے اس فیصلے کے خلاف ہائی کورٹ میں اپیل دائر کی تھی۔ ہائی کورٹ کے جج جسٹس کے سریندر نے اس کیس کی سماعت کے بعد نچلی عدالت کے فیصلے کو منسوخ کرتے ہوئے شمشیر خان کو بے قصور قرار دیا۔ عدالت نے نشاندہی کی کہ پراسیکیوشن کی جانب سے پیش کردہ ثبوت شبہات سے بھرے ہوئے تھے۔
عدالت نے اس بات کی بھی نشاندہی کی کہ قتل کی اطلاع 20 فروری 2014 کی شام کو درج کی گئی تھی لیکن عدالت کو اس کی اطلاع اگلے دن دی گئی۔ 16 گھنٹے کی تاخیر کی وجہ بھی واضح طور پر بیان نہیں کی گئی جس سے معاملہ مزید مشکوک ہوگیا۔ پراسیکیوشن نے جن دو اہم گواہوں کے بیانات پر انحصار کیا تھا وہ بھی مشکوک ثابت ہوئے
۔ قتل کے وقت جائے واردات پر موجود ہونے کا دعویٰ کرنے والے گواہ نے بعد میں عدالت کے سامنے یہ بیان دیا کہ انھیں قاتل کے بارے میں معلوم نہیں۔ قتل کے مقام پر گواہ کے کسی دکان کے ہونے کا بھی کوئی ثبوت نہیں ملا اور یہ بھی واضح نہیں کیا گیا کہ وہ شخص وہاں کس مقصد سے موجود تھا