
پٹنہ: مولانا سید احمد ولی فیصل رحمانی امیر شریعت امارت شرعیہ بہار، اڈیشہ و جھارکھنڈ نے اپنے بیان میں کہا کہ مرکزی حکومت مجوزہ وقف ایکٹ کے ذریعے اوقافی جائیدادوں پر کنٹرول حاصل کرنا چاہتی ہے اور مسلمانوں کو ان کی وقف شدہ املاک سے بے دخل کرنے کا منصوبہ بنا رہی ہے۔
یہ بل نہ صرف مسلمانوں کے حقِ ملکیت کو محدود کرتا ہے بلکہ ان کی فلاحی، تعلیمی، تجارتی اور سماجی ترقی کے بنیادی وسائل کو ختم کرنے کی سازش کا حصہ بھی ہے۔امیر شریعت نے کہا کہ یہ مجوزہ بل مسلمانوں کو اوقاف کے قیام کے حق سے محروم کرنے کے لیے بنایا جا رہا ہے، جو کہ آئین میں دیے گئے بنیادی حقوق کے سراسر خلاف ہے۔
مزید برآں، یہ بل اسلامی قوانین میں مداخلت کرتے ہوئے “وقف”، “واقف”، “متولی”، “منشا” اور دیگر بنیادی شرعی اصطلاحات کی تعریفات کو تبدیل کرنے کی کوشش کر رہا ہے، جو کہ حکومت کی ثقافتی یلغار کی ایک اور شکل ہے۔امیر شریعت نے اس سلسلے میں کہا کہ یہ بل مسلمانوں کے دینی، تعلیمی، سماجی اور تجارتی استحکام پر براہِ راست حملہ ہے، کیونکہ اوقاف ہمیشہ سے ملت کے فلاحی اور ترقیاتی کاموں کا سب سے بڑا ذریعہ رہے ہیں۔
اگر حکومت کو یہ قانون منظور کرنے میں کامیابی مل گئی، تو نہ صرف یہ مسلمانوں کی مالی خودمختاری کو کمزور کرنے کا سبب بنے گا بل کہ وقف کی زمین پر بنے مسجدوں، مدرسوں، اسکولوں، قبرستانوں، کالجوں اور خانقاہوں پر ناجائز قبضے کی راہ بھی ہموار کرے گا۔
اس مجوزہ بل کے خلاف 17 مارچ کو آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کی قیادت میں دہلی کے جنتر منتر پر ایک بڑا پرامن احتجاجی مظاہرہ منعقد ہو رہا ہے، جو کہ وقت کی سب سے اہم ضرورت ہے۔ امیر شریعت نے اس مظاہرے کی بھرپور تائید کرتے ہوئے تمام مذہبی و سماجی اکائیوں سے اپیل کی ہے کہ وہ بڑی تعداد میں اس میں شرکت کریں۔
امیر شریعت نے کہا کہ جمہوری نظام میں اپنے حقوق کے تحفظ کے لیے پرامن احتجاج ایک آئینی حق ہے، اس لیے وقت کا تقاضا ہے کہ مسلمان کثیر تعداد میں دہلی پہنچ کر اس بل کے خلاف اپنی مضبوط آواز بلند کریں۔ اگر خدانخواستہ یہ بل پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سے پاس ہوگیا، تو بھی ہماری جدوجہد مستقل مزاجی اور اتحاد کے ساتھ جاری رہے گی جب تک کہ یہ بل واپس نہ لے لیا جائے۔اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔