سناتن دھرم پر اسٹالن کا ریمارک، اب مودی جی آگئے میدان میں

[]

نئی دہلی: وزیر اعظم نریندر مودی نے سناتن دھرم تنازعہ پر اپنے پہلے ردعمل میں کہا ہے کہ تامل ناڈو کے وزیر ادھیاندھی اسٹالن کے ریمارکس پر “مناسب جواب دینے کی ضرورت ہے”۔

ادھیاندھی اسٹالن نے سناتن دھرم کے پیروکاروں پر امتیازی سلوک اختیار کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے مثال پیش کی تھی کہ پارلیمنٹ کی نئی عمارت کے افتتاح کے لئے صدر جمہوریہ ہند دروپدی مرمو کو مدعو نہیں کیا گیا کیونکہ وہ ایک دلت اور قبائلی ہیں۔

ان کے اس ریمارک کے ایک دن بعد مودی نے اس پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ اس کا مناسب جواب دینے کی ضرورت ہے۔

دوسری طرف وزیر اعلیٰ تامل ناڈو ایم کے اسٹالن کے بیٹے اور ریاستی وزیر ادھیاندھی اسٹالن نے اپنے اُس تبصرہ پر معافی مانگنے سے انکار کر دیا ہے کہ سناتن دھرم ایک بیماری کے مترادف ہے اور اسے ختم ہونا چاہئے۔

انھوں نے بار بار کہا کہ وہ اپنے تبصروں کیخلاف کسی بھی قانونی کارروائی کا سامنا کرنے کے لئے تیار ہیں۔

ایسی اطلاعات ہیں کہ ان کے خلاف کارروائی شروع کرنے کے لئے تامل ناڈو کے گورنر کی منظوری حاصل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

بتادیں کہ ادھیاندھی اسٹالن نے اپنے تبصرے کے ذریعہ ایک بہت بڑا تنازعہ کھڑا کر دیا کہ سناتن (دھرم) ملیریا اور ڈینگو کی طرح ہے اور اس لئے اس کی مخالفت نہیں بلکہ اسے ختم ہی کردیا جانا چاہئے۔

ان کے ریمارکس نے سوشل میڈیا پر زبردست ردعمل کا آغاز کیا اور بی جے پی نے دعویٰ کردیا کہ یہ نسل کشی کی کال کے مترادف ہے تاہم ڈی ایم کے لیڈر نے اس کی تردید کی ہے۔

اس تبصرے نے نئے اپوزیشن بلاک انڈیا کے کچھ اتحادیوں کو سال کے آخر میں ہونے والے ریاستی انتخابات اور اگلے سال ہونے والے عام انتخابات سے پہلے ایک نازک صورتحال سے دوچار کردیا ہے۔

کانگریس نے ایک اہم موقف اختیار کرتے ہوئے کہا ہے کہ تمام مذاہب کا احترام کیا جانا چاہئے اور لوگوں کو اپنی رائے کا اظہار کرنے کا حق حاصل ہے۔

کانگریس کے نوجوان لیڈروں جیسے پرینک کھرگے اور کارتی چدمبرم نے اسٹالن جونیئر کی حمایت کی ہے۔ سی پی ایم کے ڈی راجہ کا بھی یہی حال ہے۔

تاہم اروند کیجریوال کی عام آدمی پارٹی اور ممتا بنرجی کی ترنمول کانگریس نے ناپسندیدگی کا اظہار کیا ہے۔



[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *