
فیروز آباد (اتر پردیش): اتر پردیش کے فیروز آباد کے ایک اسپتال میں ایک مسلم شخص کی جانب سے نماز ادا کرنے کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کے بعد تنازعہ کھڑا ہو گیا۔ اس واقعہ کے بعد ہندو تنظیموں نے احتجاج کیا اور اسپتال انتظامیہ سے وضاحت طلب کی۔ معاملہ اس وقت مزید شدت اختیار کر گیا جب بی جے پی کی خاتون ایم ایل اے کیتکی سنگھ نے مسلمانوں کے لیے اسپتال میں علیحدہ وارڈ بنانے کا متنازعہ مطالبہ کر دیا۔
سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ویڈیو میں ایک شخص کو اسپتال کے ایک کونے میں نماز ادا کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ جیسے ہی یہ ویڈیو منظر عام پر آئی، ہندو تنظیموں نے سخت اعتراض ظاہر کیا اور اسپتال کے احاطے میں مذہبی عبادت کرنے پر ناراضگی کا اظہار کیا۔
اس معاملے میں ہندو یوا واہنی کے کارکن نے کہا کہ اسپتال کے قریب ہی ایک مسجد موجود ہے، اس کے باوجود اسپتال کے اندر نماز پڑھنا قابل اعتراض ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسپتال میں کسی بھی قسم کی نئی مذہبی روایت قائم کرنے کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے۔
اس معاملے پر جب بی جے پی کی خاتون ایم ایل اے کیتکی سنگھ سے سوال کیا گیا تو انہوں نے مسلمانوں کے لیے اسپتال میں علیحدہ وارڈ بنانے کا مطالبہ کر دیا۔
انہوں نے اپنے بیان میں کہاکہ یہ مسلمانوں پر منحصر ہے کہ وہ کیا کرنا چاہتے ہیں۔ انہیں ہولی سے مسئلہ ہے، انہیں رام نومی سے مسئلہ ہے، انہیں درگا پوجا سے مسئلہ ہے، ممکن ہے کہ انہیں ہندوؤں کے ساتھ علاج کرانے میں بھی مسئلہ ہو۔ میں مہاراج جی (یوگی آدتیہ ناتھ) سے درخواست کروں گی کہ مسلمانوں کے لیے الگ وارڈ بنایا جائے تاکہ وہ وہاں جا کر علاج کرا سکیں اور ہم محفوظ محسوس کر سکیں۔”
اسپتال کے چیف میڈیکل سپرنٹنڈنٹ (سی ایم ایس) ڈاکٹر نوین جین نے اس معاملے کا نوٹس لیتے ہوئے تحقیقات کا حکم دے دیا ہے۔ انہوں نے کہا: “نماز مسجد میں ادا کرنی چاہیے، اسپتال میں اس طرح کی سرگرمیوں کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ ہم واقعے کی مکمل جانچ کر رہے ہیں اور نماز پڑھنے والے شخص کی شناخت بھی کی جا رہی ہے۔ اس وقت اسپتال میں موجود عملے سے بھی جواب طلب کیا گیا ہے۔”
ہندو تنظیموں نے اس واقعے پر سخت اعتراض کرتے ہوئے اسپتال انتظامیہ سے مطالبہ کیا کہ مستقبل میں اس طرح کے واقعات نہ ہونے دیے جائیں۔ ہندو یوا واہنی اور دیگر تنظیموں کے کارکنان نے اسپتال کے باہر احتجاج بھی کیا اور متعلقہ شخص کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ کیا۔
یہ معاملہ سوشل میڈیا پر بھی موضوع بحث بن گیا ہے۔ جہاں ایک طرف ہندو تنظیموں نے اس واقعے پر برہمی کا اظہار کیا ہے، وہیں دوسری طرف کئی لوگوں نے بی جے پی ایم ایل اے کے بیان کو فرقہ وارانہ قرار دیتے ہوئے اس پر سخت تنقید کی ہے۔