جولانی رژیم کے خلاف شامی جوانوں کی مزاحمت اور مستقبل کا سناریو

مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی گروپ: شام کے مقامی ذرائع نے بتایا کہ ملک کے ساحلی علاقوں میں مزاحمتی فورسز نے دہشت گرد گروہ تحریر الشام کے عناصر پر گھات لگا کر حملہ کیا جس کے نتیجے میں کم از کم 5 عناصر ہلاک ہوئے۔ 

اس واقعے کے بعد لاذقیہ، طرطوس اور حمص میں مسلح تصادم زور پکڑنے لگا۔ ان جھڑپوں کے دوران بعض بیرکوں، چوکیوں اور سرکاری مراکز کا کنٹرول مزاحمتی قوتوں کے ہاتھ میں چلا گیا اور وہ کچھ تکفیری عناصر کو پکڑنے میں کامیاب ہوئیں۔

 دوسری طرف جولانی کے دہشت گرد عناصر نے لاذقیہ اور “جبلہ” میں علویوں کا  قتل عام کیا اور صبح 10 بجے سے رات 10 بجے تک کرفیو لگانے کی کوشش کی۔

جولانی رژیم نے ترکی کی حمایت سے، “شاہین” ڈرون بریگیڈ کو مظاہرین پر اندھا دھند بمباری کے لئے استعمال کیا جس کے نتیجے میں شہریوں کی غیر معمولی اموات ہوئیں۔

“العربیہ” کے مطابق جولانی فورسز شام کے مغربی علاقوں کا ایک بار پھر  کنٹرول حاصل کرنے کے لئے متحرک ہوگئی ہیں۔ 

تازہ ترین خبروں کے مطابق شام کی عوامی فورسز اور تکفیریوں کے درمیان لاذقیہ میں ابن سینا ہسپتال کے قریب شدید لڑائی جاری ہے۔ 

عبرانی ذرائع کے مطابق لڑائی کے پہلے 24 گھنٹوں میں 70 سے زائد افراد جاں بحق اور درجنوں زخمی ہوئے۔ 

ساحلی علاقے کے علویوں پر ظلم کی سطح اس قدر شدید ہے کہ لوگوں کے مختلف گروہ “الحمیمیم” اڈے میں پناہ کے لئے دوڑے اور روسیوں سے اپنی کی حفاظت کی درخواست کی۔

 بعض تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ دہشت گرد گروہ تحریر الشام  نے بحیرہ روم تک اپنی رسائی برقرار رکھنے کے لیے کرد اور دروز اقلیتوں سے نمٹنے میں ناکامی کے بعد علویوں کو دبانے کا فیصلہ کیا ہے۔ 

اس بات کا بھی امکان ہے کہ تکفیری پروپیگنڈہ مشنری موجودہ حالات میں جولانی کی کمزوریوں کو چھپانے اور ایک مصنوعی اتحاد بنانے کے لیے داخلی دشمن” کا شوشہ چھوڑ رہی ہیں۔ 

شامی عوام کی دہشت گرد رژیم سے مایوسی 

شام کی قومی ریاست ان سیاسی نظاموں میں سے ایک ہے جو مشرقی عرب خطے کے قلب میں سائیکس پیکوٹ کی طرف سے کھینچی گئی لکیروں کے زیر اثر بنایا گیا ہے۔

 فرانس کی سرپرستی میں اس ملک کے قیام کے پہلے دنوں سے ہی گروہی “اکثریت اور اقلیت” کا فرق موجود ہے، جس سے علاقائی اور غیر ملکی اداکاروں کو شام پر قبضے کا امکان فراہم کیا ہے۔ 

 آج شام شکست و ریخت کے خطرے سے دوچار ہے اور آنے والے واقعات اس عرب ملک کا نقشہ ہمیشہ کے لیے بدل سکتے ہیں!

 علاقائی خطرات سے نمٹنے کے لیے دہشت گرد گروہ تحریر الشام کی ناکامی اور اس کے ساتھ اقتصادی مسائل کی وجہ سے عام لوگ سراپا احتجاج ہیں اور دمشق کے نئے حکمران کے احتساب کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ 

عام لوگوں کی نظر میں، معاشی مسائل کے باوجود، بشار الاسد حکومت کو مزاحمتی محور کی حمایت کے باعث یہ طاقت حاصل تھی کہ اس نے صیہونی حکومت کو 1974 کے معاہدے کی بنیاد پر “سرحدی ریڈ لائن” کو عبور کرنے کی اجازت نہیں دی۔ 

لیکن اب شامی عوام جنوبی شام پر اسرائیل کے قبضے کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ مشرقی سرحدوں میں شام کا تقریباً پانچواں حصہ اب بھی ’کیو ایس ڈی‘ کے کنٹرول میں ہے۔

 ایسے میں عوام نے سڑکوں میں آکر اپنے مطالبات کرنے کا فیصلہ کیا۔ دوسری جانب دہشت گرد گروہ تحریر الشام کی حکومت، کیے گئے وعدوں کو پورا کرنے میں ناکام ہوگئی ہے لہذا وہ عوام پر بڑے پیمانے پر جبر کے علاوہ کوئی چارہ نہیں دیکھتی۔

 یہ ایسے وقت میں ہے کہ جب قطر نے شام میں 20 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کا وعدہ کیا ہے اور ترکوں نے بھی اپنی اقتصادی  اور لاجسٹک طاقت کا ایک بڑا حصہ جولانی حکومت کو مستحکم کرنے میں مدد کے لیے استعمال کیا ہے۔ 

حال ہی میں، ترکی کا تیرتا ہوا پاور پلانٹ شام کے ساحل پر پہنچ گیا تاکہ اس عرب ملک کے بجلی کے گرڈ سے منسلک ہو کر نئی حکومت پر عوام کے اطمینان کو بڑھایا جا سکے۔

اس کے ساتھ ہی یورپی یونین نے دمشق کے نئے حکمرانوں کی حمایت کرتے ہوئے شامی رائے عامہ کو یقین دلانے کے لیے بعض پابندیوں
کو منسوخ کر دیا کہ ماضی سے بہتر مستقبل متوقع ہو! 

سعودی عرب اور دیگر ممالک نے بھی دہشت گرد گروہ تحریر الشام کی بھرپور مالی مدد کی۔ 

جولانی حکومت کو غیر ملکی حمایت کے باوجود ایسا لگتا ہے کہ عام لوگوں کو اپنے معاشی اور سیکورٹی خدشات کا مناسب جواب نہیں ملا ہے اور وہ اپنے مطالبات کو پورا کرنے کے لیے سنجیدہ اقدام کے منتظر ہیں۔

مستقبل کا منظرنامہ

شام کے ساحلی علاقوں میں علوی عوام کی مزاحمت کی کامیابی یا ناکامی کا دارومدار کرد، دروز اور عیسائی اقلیتوں کے ردعمل پر ہے۔

 “دمشق کے مرکزیت پسندوں” کے خلاف شامی اقلیتیں پورے شام میں “وفاقی نظام” کو بحال کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔

 اس میدانی صورتحال میں شامی اقلیتوں کے درمیان کسی بھی قسم کی ہم آہنگی درمیانی مدت میں ان کی کامیابی کے امکانات کو بڑھا دے گی۔ 

اگر شام کی سرحدوں پر واقع اقلیتوں کو ’’قومی مذاکرات‘‘ یا ’’آئینی کونسل‘‘ کے دوران مزید رعایتیں حاصل کرنا ہوں یا وہ عملی میدان میں سیاسی یا عسکری آزادی کا نمایاں درجہ حاصل کرنا چاہیں تو ان کے پاس اتحاد اور ہم آہنگی کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہے۔

 نتیجہ سخن

شام میں امن کی بحالی کے لیے مغربی اور عرب حکومتوں کی مسلسل کوششوں کے باوجود یہ عرب ملک پہلے سے زیادہ اپنی سالمیت کھو چکا ہے اور شدید علاقائی اور  بین الاقوامی مداخلت کی وجہ سےٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ 

حالیہ ہفتوں کے دوران، “سویداء ملٹری کونسل”  اس صوبے سے الجولانی فورسز کی باقیات کو بھگانے میں کامیاب ہوئی اور اپنی “خودمختاری” کا مطالبہ کیا۔

 اب ہمیں انتظار کرنا ہوگا کہ جولانی رژیم اس داخلی کشمکش کے دوران شام کے مشرقی اور جنوبی علاقوں پر اپنا کنٹرول کس حد تک بحال کر پائے گی۔

 نتیجہ کچھ بھی ہو، مستقبل میں ہونے والی پیش رفت یہ ظاہر کرے گی کہ شام کے پرجوش نوجوان ملک کے داخلی انتشار اور بیرونی جارحیت پر خاموش نہیں رہیں گے اور حالات کو بدلنے کی کوشش کریں گے۔

[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *