مہر خبررساں ایجنسی کے مطابق، امریکی ذرائع نے انکشاف کیا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ نے قطر کے دارالحکومت دوحہ میں فلسطینی مزاحمتی تحریک حماس کے ساتھ براہ راست اور غیر معمولی مذاکرات کیے ہیں۔
اس حوالے سے آکسیوس نے کہا ہے کہ فریقین نے یرغمالیوں کی رہائی اور غزہ میں جاری جنگ کے خاتمے کے لیے کسی وسیع تر معاہدے تک پہنچنے کے مقصد سے مذاکرات کیے ہیں۔
آکسیوس کے مطابق، یہ ملاقاتیں گزشتہ چند ہفتوں میں دوحہ میں منعقد ہوئیں، جبکہ وال اسٹریٹ جرنل نے انکشاف کیا ہے کہ ان مذاکرات کا پہلا دور فروری میں ہوا تھا۔
نیویارک ٹائمز نے بھی اسرائیلی اور سفارتی ذرائع کے حوالے سے تصدیق کی ہے کہ قطر میں امریکی حکام اور حماس کے درمیان بات چیت ہوئی، جس میں اسرائیلی اور امریکی قیدیوں کے معاملے پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
مذاکرات میں شریک امریکی وفد کی قیادت امریکی خصوصی ایلچی آدم بولر نے کی جو اس وقت امریکی قیدیوں کے امور کے نگران تھے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ بات چیت تاریخی نوعیت کی تھی، تاہم تاحال کسی معاہدے پر اتفاق نہیں ہو سکا۔
وائٹ ہاؤس کی ترجمان کارولین لیوٹ نے بھی اس بات کی تصدیق کی ہے کہ امریکی مذاکرات کار ایڈم بولر نے دوحہ میں حماس کے نمائندوں سے ملاقات کی۔ انہوں نے کہا کہ واشنگٹن نے ان مذاکرات کے حوالے سے اسرائیل سے مشورہ کیا تھا۔